- غزل
- رویا ہوں تیری یاد
- میری پسند
- میری پسند
- میری پسند
- مذاخیہ شاعری
- ہم تجھ سے کس ہوس کی فلک! جستجو کریں
- وہ جو تیرے فقیر ہوتے ہیں
- آشوب
- زرا ہنس لو
- ہنسنا منع نھی
- ہو ہو
- ھاھا
- ٹاٹا
- ہے آپ کے ہونٹوں پر جو مسکان وغيرہ
- (انور مسعود
- بیماری کا نام
- کڑي اميرا دي منڈا غريب دا
- مرغا مرغيوں ميں بڑا مشہور ہوا ہے
- وہ شخص جو پيسے سے محبت نہيں کرتا
- کيا خبر تھي انقلاب آسماں ہوجائے گا
- دل ميں ٹھنڈک آگئي ٹھنڈا مرا من ہوگيا
- خدا حافظ مسلمانوں کا اکبر مجھے تو ان کي خوشحالي سے ہے ياس
- چپکے چپکے تنہا تنہا
- شکنجے ٹوٹ گئے
- دستور
- بھیک نہ مانگو
- حکمرانوں
- خدا ہی جانتا ہے
- پاکستان کے چاہنے والو
- تین سوالوں کا ایک جواب
- پھریوں ہوا
- شہداء کربلا کی یاد
- نام شہید کربلا
- فنی غزل
- تیرا ککھ نہ رہے
- مذاخیہ شاعری
- " ادبی ڈکیتی "
- " سوتن نامہ "
- دل تو چاہتا ہے. سلیم ناصر
- انسان کو غم کھا جاتا ہے ،
- مومن کی صفات ، علامہ محمد اقبال
- ماڈرن عاشق اور محبوبہ
- غزل
- غزل
- اَن گنت لوگ ، اَن گنت چہرے
- مضائقہ نہیں کوئی جو پھل ہی کاٹ دیا
- دلدل تھی زندگی کی سو دھنستا چلا گیا
- تم نے اچھا ہی کیا مجھ کو جو پوچھا بھی نہیں
- اے دوست مجھے اپنے خیالوں کی روانی دے جا
- مسدسِ حالی
- ہے آپ کے ہونٹوں پر جو مسکان وغيرہ
- انہی خوش گمانیوں میں کہیں جاں سے بھی نہ جاؤ
- ڈھونڈوگے اگر ملکوں ملکوں
- تم اگر یوں ہی نظریں ملاتے رہے
- سحر کے ساتھ ہی سورج کا ہمرکاب ہوا
- دنیا کا کچھ برا بھی تماشا نہیں رہا
- پسِ مرگ میرے مزار پر جو دیا کسی نے جلا دیا
- مجھ سا جہان میں نادان بھی نہ ہو
- قہر ہے موت ہے قضا ہے عشق
- پنی تنہائی مرے نام پہ آباد کرے
- گلاب ہاتھ میں ہو ، آنکھ میں ستارہ ہو
- وہی پرند کہ کل گوشہ گیر ایسا تھا
- اب کیسی پردہ داری ، خبر عام ہو چکی
- میرے چھوٹے سے گھر کو یہ کس کی نظر، اے خُدا! لگ گئی
- دُکھ نوشتہ ہے تو آندھی کو لکھا ! آہستہ
- منظر ہے وہی ٹھٹک رہی ہوں
- دن ٹھہر جائے ، مگر رات کٹے
- اب کون سے موسم سے کوئی آس لگائے
- کیسے چھوڑیں اُسے تنہائی پر
- دل و نگاہ پہ کس طور کے عذاب اُترے
- ہم نے ہی لوٹنے کا ارادہ نہیں کیا
- سمندروں کے اُدھر سے کوئی صدا آئی
- رقص میں رات ہے بدن کی طرح
- کمالِ ضبط کو خود بھی تو آزماؤں گی
- اب آئے چارہ ساز کہ جب زہر کِھل چُکا
- کیسی بے چہرہ رُتیں آئیں وطن میں اب کے
- نم ہیں پلکیں تری اے موجِ ہَوا، رات کے ساتھ
- دھنک دھنک مری پوروں کے خواب کر دے گا
- یارب! مرے سکوت کو نغمہ سرائی دے
- کیا ضروری ہے
- یونہی تنہا تنہا نہ خاک اُڑا، مری جان میرے قریب آ
- مجھے سارے رنج قبول ہیں
- یہ حسیں لوگ ہیں, تو ان کی مروت پہ نہ جا
- جسے آنسوؤں سے مٹائیں ہم
- ہی نہیں کہ فقط ہم ہی اضطراب میں ہیں
- تجھے بھلا کے جیوں ایسی بددعا بھی نہ دے
- تھی جس سے روشنی ، وہ دیا بھی نہیں رہا
- پھول تھے رنگ تھے لمحوں کی صباحت ہم تھے
- معلوم نہ تھا ہم کو ستائے گا بہت وہ
- ملیں پھر آکے اسی موڑ پر دعا کرنا
- میں کسے سنا رہا ہوں یہ غزل محبتوں کی
- میں جانتا تھا ایسا بھی اک دور آئے گا
- تمہیں جب کبھی ملیں فرصتیں
- کبھی تو نے خود بھی سوچا
- تجھ سے بچھڑ کر آنکھوں کو نم کس لئے کریں
- یا رب غمِ ہجراں میں اتنا تو کیا ہوتا
- جتنی دعائیں آتی تھیں
- ہم سے کیا پوچھتے ہو ہجر میں کیا کرتے ہیں
- اپنے احساس سے چھو کر مجھے صندل کردو
- ہم جان فدا کرتے ، گر وعدہ وفا ہوتا
- وہ جو ہم میں تُم میں قرار تھا
- اثر اس کو ذرا نہیں ہوتا
- تیرے خیال سے لو دے اُٹھی ہے تنہائی
- پھر شامِ وصالِ یار آئی
- نصیب عشق دلِ بےقرار بھی تو نہیں
- صدائے رفتگاں پھر دل سے گزری
- نازِ بیگانگی میں کیا کچھ تھا
- ترے ملنے کو بے کل ہو گۓ ہیں
- گرفتہ دل ہیں بہت آج تیرے دیوانے
- عشق میں جیت ہوئی یا مات
- کیا دن مجھے عشق نے دکھائے
- ہوتی ہے تیرے نام سے وحشت کبھی کبھی
- کسی کلی نے بھی دیکھا نہ آنکھ بھر کے مجھے
- سفرِ منزلِ شب یاد نہیں
- وہ دلنواز ہے لیکن نظر شناس نہیں
- سرِ مقتل بھی صدا دی ہم نے
- یاد آتا ہے روز و شب کوئی
- دل دھڑکنے کا سبب یاد آیا
- دل میں اک لہر سی اٹھی ہے ابھی
- نئے کپڑے بدل کر جاؤں کہاں
- اداسیوں کا مداوا نہ کر سکے تو بھی
- رنگ برسات نے بھرے کچھ تو
- بے چین بہت پھرنا گھبرائے ہوئے رہنا
- قرار ہجر میں اس کے شراب
- لازم نہیں کہ اس کو بھی میرا خیال ہو
- یہ کیسا نشہ ہے
- اُن سے نین ملا کے دیکھو
- وہ دل کی باتیں زمانے بھر کو یہ یوں سناتا ، مجھے بتاتا
- لازم تھا کہ دیکھو مرا رستہ کوئی دِن اور
- دل سے تری نگاہ جگر تک اتر گئی
- اٹھا اک دن بگولا سا جو کچھ میں جوشِ وحشت میں
- درد ہو دل میں تو دوا کیجے
- اے تازہ واردانِ بساطِ ہوائے دل
- وہی قصے ہیں وہی بات پرانی اپنی
- شکل اس کی تھی دلبروں جيسی
- ہر ايک زخم کا چہرہ گلاب جيسا ہے
- چاہت کا رنگ تھا نہ وفا کي لکير تھي
- آہٹ سي ہوئي تھي نہ کوئي برگ ہلا تھا
- لہرائے سدا آنکھ میں پیارے تیرا آنچل
- تو نے نفرت سے جو دیکھا تو مجھے یاد آیا
- آجا کہ ابھی ضبط کا موسم نہیں گزرا
- چاہیے دنیا سے ہٹ کر سوچنا
- وہ دل کا برا نہ بے وفا تھا
- میں نے اس طور سے چاہا تجھے اکثر جاناں
- ہم جو پہنچے سر مقتل تو یہ منظر دیکھا
- اُجڑے ہُوئے لوگوں سے گریزاں نہ ہُوا کر
- منسوب تھے جو لوگ میری زندگی کے ساتھ
- جر کی پہلی شام کے سائے دور افق تک چھائے تھے
- پہلے تو اپنے دل کی رضا جان جائیے
- وہ دل ہی کیا جو ترے ملنے کی دعا نہ کرے
- میری زندگی تو فراق ہے، وہ ازل سے دل میں مکیں سہی
- حالات کے قدموں پہ قلندر نہیں گرتا
- یہ معجزہ بھی محبت کبھی دکھائے مجھے
- بول، کہ لب آزاد ہیں تیرے
- ہمتِ التجا نہیں باقی
- بے دم ہوئے بیمار، دوا کیوں*نہیں*دیتے
- دونوں جہاں تیری محبت میں ہار کے
- اٹھا اک دن بگولا سا جو کچھ میں جوشِ وحشت میں
- انہی خوش گمانیوں میں کہیں جاں سے بھی نہ جاؤ
- اِس کا سوچا بھی نہ تھا اب کے جو تنہا گزری
- کس قدر آگ برستی ہے یہاں
- سراپا عشق ہوں میں اب بکھر جاؤں تو بہتر ہے
- کٹھن ہے راہ گزر تھوڑي دور ساتھ چلو
- اب کے تجدیدِ وفا کا نہیں امکاں جاناں
- سنا ہے لوگ اُسے آنكھ بھر كے دیكھتے ہیں
- وہ عجیب صبحِ بہار تھی
- جو حرفِ حق تھا وہی جا بجا کہا سو کہا
- برسوں کے بعد ديکھا اک شخص دلرُبا سا
- کب یاروں کو تسلیم نہیں ، کب کوئی عدو انکاری ہے
- ان چراغوں کو تو جلنا ہے ہوا جیسی ہو
- میں مر مٹا تو وہ سمجھا یہ انتہا تھی مری
- کل پرسش احوال کی جو یار نے میرے
- گُل ترا رنگ چرا لائے ہیں گلزاروں میں
- خدا کرے کہ مری ارض پاک پر اترے
- جب ترا حکم ملا ترک محبّت کر دی
- بول، کہ لب آزاد ہیں تیرے
- سب مایا ہے
- یہ باتیں جھوٹی باتیں ہیں، یہ لوگوں نے پھیلائی ہیں
- حال دل جس نے سنا گریہ کیا
- کل چودھویں کی رات تھی، شب بھر رہا چرچا تیرا
- انشا جی اٹھو اب کوچ کرو، اس شہر ميں جی کو لگانا کيا
- فرض کرو ہم اہلِ وفا ہوں، فرض کرو دیوانے ہوں
- ہم گُھوم چکے بَستی بَن میں
- بہت پہلے سے ان قدموں کی آہٹ جان لیتے ہیں
- وہ باتیں تری وہ فسانے ترے
- وہ جو تیرے فقیر ہوتے ہیں
- خالی ابھی جام میں کچھ سوچ رہا ہوں
- اس راز کو اک مرد فرنگي نے کيا فاش
- حکمت مشرق و مغرب نے سکھايا ہے مجھے
- فتوي ہے شيخ کا يہ زمانہ قلم کا ہے
- موت ہے اک سخت تر جس کا غلامي ہے نام
- ضمير مغرب ہے تاجرانہ، ضمير مشرق ہے راہبانہ
- نشاں يہي ہے زمانے ميں زندہ قوموں کا
- رندوں کو بھي معلوم ہيں صوفي کے کمالات
- رباعیات
- آتي ہے دم صبح صدا عرش بريں سے
- وہ مستِ ناز جو گلشن میں آ نکلتی ہے
- دور حاضر ہے حقیقت میں وہی عہد قدیم
- ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں
- نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسمِ شبیری
- نہ آتے ہمیں اس میں تکرار کیا تھی
- کیا کہوں اپنے چمن سے میں جدا کیونکر ہوا
- ظاہر کی آنکھ سے نہ تماشا کرے کوئی
- بے قراری سی بے قراری ہے
- تم حقیقت نہیں ہو حسرت ہو
- ہونٹوں پہ کبھی ان کے میرا نام ہی آئے
- ہرشخص پریشان سا حیراں سا لگے ہے
- کیا کہیے کہ اب اس کی صدا تک نہیں آتی
- کچھ دن اگر یہی رہا دیوار و در کا رنگ
- گزرے ہوئے طویل زمانے کے بعد بھی
- آ کے دیکھو تو کبھی تم میری ویرانی میں
- کیوں میرے لب پہ وفاؤں کا سوال آ جائے
- ٹوٹ جائے نہ بھرم ہونٹ ہلاؤں کیسے
- جانے یہ کیسی تیرے ہجر میں ٹھانی دل نے
- یوں دل میں تیری یاد اتر آتی ہے جیسے
- فاصلے ایسے بھی ہونگے یہ کبھی سوچا نہ تھا
- کب سماں تھا بہار سے پہلے
- رُودادِ محبّت کیا کہئیے
- بُھولی ہوئی صدا ہوں مجھے یاد کیجیے
- محفلیں لُٹ گئیں جذبات نے دم توڑ دیا
- ایک وعدہ ہے کِسی کا جو وفا ہوتا نہیں
- دُکھ درد کی سوغات ہے دُنیا تیری کیا ہے
- میرے چمن میں بہاروں کے پُھول مہکیں گے
- جب سے دیکھا پَری جمالوں کو
- وقت کی عمر کیا بڑی ہو گی
- ہے دعا یاد مگر حرفِ دعا یاد نہیں
- یہ جو دیوانے سے دو چار نظر آتے ہیں
- چراغِ طور جلاؤ! بڑا اندھیرا ہے
- اے تغیر زمانہ یہ عجب دل لگی ہے
- زخمِ دل پربہار دیکھا ہے
- جو عشق میں نے کفر کی پہچان کر دیا
- سُن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا
- یہ آرزو تھی تجھے گل کے رُوبرو کرتے
- ہستی اپنی حباب کی سی ہے
- کب تک تو امتحاں میں مجھ سے جدا رہے گا
- مجھ کو پوچھا بھی نہ یہ کون ہے غم ناک ہنوز
- بے کلی، بے خودی کچھ آج نہیں
- فقیرانہ آئے صدا کرچلے
- تا بہ مقدور انتظار کیا
- تجھ بِن خراب و خستہ زبوں خوار ہو گئے
- اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے
- لائی حیات آئے قضا لے چلی چلے
- پھرتا لیے چمن میں ہے دیوانہ پن مجھے
- اک کہانی سبھی نے سنائی مگر ، چاند خاموش تھا
- تو نے دیکھا ہے کبھی ایک نظر شام کے بعد
- جو اس کے چہرے پہ رنگ حیا ٹھہر جائے
- کہا میں نے کہاں ہو تم
- لاکھ دوری ہو مگر عہد نبھاتے رہنا
- میں یہاں اور تو وہاں جاناں