- یہ کیا کہ سب سے بیاں دل کی حالتیں کرنی
- یوں تو کہنے کو بہت لوگ شناسا میرے
- سنا ہے لوگ اُسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں
- سلسلے توڑ گیا وہ سبھی جاتے جاتے
- سکوتِ شامِ خزاں ہے قریب آ جاؤ
- سکوت بن کے جو نغمے دلوں میں پلتے ہیں
- رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کے لئے آ
- دوست بھی ملتے ہیں محفل بھی جمی رہتی ہے
- دوست بن کر بھی نہیں ساتھ نبھانے والا
- چلی ہے شہر میں کیسی ہوا اداسی کی
- چلو وہ عشق نہیں چاہنے کی عادت ہے
- جو سادہ دل ہوں بڑی مشکلوں میں ہوتے ہیں
- جو بھی قاصد تھا وہ غیروں کے گھروں تک پہنچا
- جُز تیرے کوئی بھی دِن رات نہ جانے میرے
- جب ملاقات بے ارادہ تھی
- تیرا غم اپنی جگہ دنیا کے غم اپنی جگہ
- تو پاس بھی ہو تو دل بے قرار اپنا ہے
- تم بھی خفا ہو لوگ بھی برہم ہیں دوستو
- تپتے صحراؤں پہ گرجا، سرِ دریا برسا
- برسوں کے بعد دیکھا اک شخص دلربا سا
- بدن میں آگ سی چہرہ گلاب جیسا ہے
- اے خدا جو بھی مجھے پندِ شکیبائی دے
- اُس کی نوازشوں نے تو حیران کر دیا
- اِس قدر مسلسل تھیں شدتیں جدائی کی
- اس سے پہلے کہ بے وفا ہو جائیں
- اب کے ہم پر کیسا سال پڑا لوگو
- اب کے کچھ ایسی سجی محفل یاراں جاناں
- اب کے رت بدلی تو خوشبو کا سفر دیکھے گا کون
- اب کے تجدیدِ وفا کا نہیں اِمکاں جاناں
- اب تو اس طرح مری آنکھوں میں خواب آتے ہیں
- اب اور کیا کسی سے مراسم بڑھائیں ہم
- آنکھ سے دور نہ ہو دل سے اتر جائے گا
- تمہاری پوروں کا لمس اب تک
- وہ شام کیا تھی جب اس نے بڑی محبت سے
- فقیرانہ روش رکھتے تھے
- میں نے اکثر تمہارے قصیدے لکھے
- اے دل ان آنکھوں پر نہ جا
- میری بستی سے پرے بھی میرے دشمن ہوں گے
- اب کس کا جشن مناتے ہو
- کیوں طبیعت کہیں ٹھہرتی نہیں
- شعلہ سا جل بجھا ہوں ہوائیں مجھے نہ دو
- تیرا غم اپنی جگہ دنیا کے غم اپنی جگہ
- تیری باتیں ہی سنانے آئے
- کس طرح ياد کروں کيسے بھلاؤں تجھ کو
- دل بھی بُجھا ہو شام کی پر چھائیاں بھی ہوں
- میری روح نکلنے والی ھو گی
- کتاب دل میں جو نفرت کا باب رکھتا تھا
- خود کو پڑھتا ہوں چھوڑ دیتا ہوں
- اس نے سکوتِ شب میں بھی اپنا پیام رکھ دیا
- ایک صنم تراش جس نے برسوں
- تمہارے شہر کا موسم بڑا سہانا لگے
- وہ جو آ جاتے تھے آنکھوں میں ستارے لے کر
- دل ٹھہرنے دے تو آنکھیں بھی جھپکتے جاویں
- کیا ایسے کم سُخن سے کوئی گفتگو کرے
- جو غیر تھے وہ اسی بات پہ ہمارے ہوئے
- میں تو مقتل میں بھی قسمت کا سکندر نکلا
- نہ منزلوں کو نہ ہم رہ گزر کو دیکھتے ہیں
- آج پھر مجھکو اسکی یاد دلا دی بارش نے
- کٹھن ہے راہگذر تھوڑی دور ساتھ چلو
- کل رات ہم سخن کوئی بُت تھا خدا کہ میں
- يہ عالم شوق کا ديکھا نہ جائے
- قربتوں میں بھی جدائی کے زمانے مانگے
- اک سنگ تراش جس نے برسوں
- زندگی سے یہی گلہ ہے مجھے
- دل منافق تھا شب ِہجر میں سویا کیسا
- اِس کا سوچا بھی نہ تھا اب کے جو تنہا گزری
- ملول کر ہمیں اتنا ملول کر جاناں
- کچھ نہ کسی سے بولیں گے
- میں مرمٹا تو وہ سمجھا یہ انتہا تھی مری
- دکھ فسانہ نہیں کہ تجھ سے کہیں
- سلسلے توڑ گیا وہ سبھی آتے جاتے
- اب نہ فرصت ہے نہ احساس ہے غم سے اپنے
- ہم سنائیں توکہانی اور ہے
- یہ جو سر گشتہ سے پھرتےھیں کتابوں والے
- فقیرانہ روش رکھتے تھے
- یہ دل کا چور کہ اس کی ضرورتیں تھیں بہت
- سنگدل ہے وہ تو کیوں اس کا گلہ میں نے کیا
- تیرے قریب آکے بڑی الجھنوں میں ہوں
- ہر کوئی دل کی ہتھیلی پہ ہے صحرا رکھے
- جہاں بھی جانا ہو تو آنکھوں میں خواب بھر لانا
- اِن چراغوں کو تو جلنا ہے ہوا جیسی ہو
- سناہے۔۔۔۔۔۔
- محاصرہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
- دوست بن کر بھی نہیں ساتھ نبھانے والا
- ہر دوا، درد کو بڑھا ہی دے
- یہ دل کا چور کہ اس کی ضرورتیں تھیں بہت
- احمد فراز کی کتاب دردِ آشوب سے انتخاب
- ساقیا ایک نظر جام سے
- دشت نا مرادی میں ساتھ کون تھا کس کے
- جس طرح کوئ کہے
- لفظوں میں فسانے ڈھونڈتے ہیں ہم لوگ
- شگفت گل کی صدا میں رنگ چمن میں آؤ
- اگرچہ زور ہواؤں نے ڈال رکھا ہے
- اُ س سے ملنے کو کبھی ہم جو مچل جاتے ہیں
- جلا وطنی
- آ گلے تجھ کو لگا لوں میرے پیارے دشمن
- اب تو وہ بات بھی کرتے نہیں غمخوار کے ساتھ
- سائے کی طرح نہ خود سے رم کر
- وہ شہر جو ہم سے چھوٹا ہے، وہ شہر ہمارا کیسا ہے
- سفید چھڑیاں
- طاہرہ کے لئے ایک نظم
- نا سپاس
- جاؤ!
- یہ شہر سحر زدہ ہے صدا کسی کی نہیں