- اگر نہ درد میری رُوح میں اُتر جاتا
- اک محبت کے عوض ارض و سما دے دوں گا
- کسے معلوم تھا اس شے کی تجھ میں بھی کمی ہوگی
- اپنے ماحول سے بھی قیس کے رشتے کیا کیا
- اب تو شہروں سے خبر آتی ہے دیوانوں کی
- طور سے کوئی علاقہ ہے نہ ربط ایمن سے
- دشت میں ساتھ چلے تو ہزاروں، جو بھی چلا بیگانہ چلا
- مَیں تجھ کو دیکھنے کی تمنا میں چوُر تھا
- میری نظر کو حوصلئہ امتحاں نہ تھا
- میں دوستوں سے تھکا، دشمنوں میں جا بیٹھا
- ہم اندھیروں سے بچ کر چلتے ہیں
- جانے یہ محّبت کیا شے ہے، تڑپا بھی گئی، ٹپکا بھی گئی
- بگڑ کے مجھ سے وہ میرے لئے اُداس بھی ہے
- بھلا کیا پڑھ لیا اپنے ہاتھوں کی لکیروں میں
- ایک پھر سے ہم کو حکمِ انتظار آئے
- سخن شناس
- تضاد
- روح و بدن کے خم و پیچ
- داورِ حشر ! مجھے تیری قسم
- لّبوں پہ نرم تبّسم رچا کہ دُھل جائیں
- شام کو صُبحِ چمن یاد آئی
- تاریخ
- جب تیرا حکم ملا ، ترک محبت کردی
- مجھے کل میرا ایک ساتھی مِلا
- ٹوٹتے جاتے ہیں سب آئنہ خانے میرے
- قریہِ محّبت
- کون کہتا ہے کہ تجھ سی کوئی صُورت نہ ملی
- طوفان ہے ہمرکاب میرا
- خواب
- فشار
- فاتحیں
- دردِ وطن
- چاند
- برف کا خوف
- ابدیت
- میرا اپنا
- پتھر
- گھبرا کے شبِ ہجر کی بے کیف سحر میں
- جب تیرا ظہوُر دیکھتا ہوُں
- ہوا لپکتی رہے، میرا کارواں تو چلے
- جب چرخ پہ تارے مجھے کرتے ہیں اشارے
- رُک گئی عقل و فکر کی پرواز
- نہ جانے خال و خد کیوں چھِن گئے ہیں خوش جمالوں کے
- مچلتی ہے میری آغوش میں خوشبوئے یار اب تک
- صرف اس شوق میں پوچھی ہیں ہزاروں باتیں
- اگر نہ درد میری رُوح میں اُتر جاتا
- انداز ہو بہو تیری آوازِ پا کا تھا
- اندھیروں سے بچ کر چلتے ہیں
- بگڑ کے مجھ سے وہ میرے لئے اُداس بھی ہے
- خون رسنے لگتا ہے، ان کے دامنوں سے بھی
- آئے، کوئی انقلاب آئے
- سراہوں گا تیرے مَن مَن کے روُٹھ جانے کو
- مروں تو مَیں کسی چہرے میں رنگ بھر جاؤں
- میری طرح، کسی کو تو اپنا بنا کے دیکھ
- آج کی شب تم نہ آ پائے، مگر اچھا ہوُا
- جو اپنی جڑوں کو کاٹتا ہے
- میں کہاں ھوُں مِری تنہائیوں! میرے خوابوں!
- آپ ہی اپنا تماشائی ہوں
- اب تک تو نور و نکہت و رنگ و صدا کہوں
- کون کہتا ہے کہ موت آئ تو مر جاؤں گا
- کوئی ظالم جو چھُپ کر گا رہا ہے
- اے داورِ محشر مُجھے تیری قسم
- ہم اندھیروں سے بچ کے چلتے ہیں
- تجھ کھو کر بھی تجھے پاؤں جہاں تک دیکھوں
- وہ زود رنج تو ہے، وہ وفا شناس بھی ہے
- اک لمحہ کو ٹھہر میں تجھے پتھر لادوں
- ایک درخواست
- کتنے کوسوں پہ جا بسی ہے تو
- کبھی جھانکا تری آنکھوں میں تو ہم ہی ہم تھے