- تم جو ہوتے تو ہمیں کتنا سہارا ہوتا
- لگ رہا ہے شہر کے آثار سے
- اک کہانی سبھی نے سنائی مگر، چاند خاموش تھا
- وہ مجھ سے پوچھتی ہے
- وہ بولی میں بہت مجبور ہوں جیون کے
- وہ کہتی ہے زمانے کا رویہ دل میں چبھتا ہے
- وہ بولی میں گل شاخ غم تنہائی ہوں فرحت
- وہ کہتی ہے میں عجز فطرت کونین ہوں
- وہ مجھ سے پوچھتی ہے بیعت سلطان
- وہ کہتی ہے کہ تم مجھے کو پکارا ہی نہیں
- وہ بولی آ تجھے میں راکھ کی تاثیر بتلاؤں
- وہ مجھ سے پوچھتی ہے کیا ہے کچھ حیران
- وہ کہتی ہے ہوائیں رات سے آنگن
- وہ مجھ سے پوچھتی آشیانے جل گئے ہوں گے
- وہ مجھ سے پوچھتی ہے مجھ سے باتیں کیوں نہیں کرتے
- وہ کہتی ہے، اگر سب راستے مسدود ہو جائیں
- وہ کہتی ہے کہ فرحت بے ضرر رہنا نہیں اچھا
- وہ کہتی ہے کہ اب روؤں تو آنسو چبھنے لگتے ہیں
- وہ کہتی ہے کہ اب آوارگی سے کچھ نہیں حاصل
- وہ بولی تم کہاں غائب ہوئے رہتے ہو
- وہ کہتی ہے مجھے مایوسیاں رستہ نہیں دیتیں
- وہ بولی زندگی کا آخری کردار حیرت ہے
- وہ کہتی ہے ترے ہاتھوں پہ زخموں کے مناظر کیوں
- وہ بولی دق زدہ جیون چھپاتی پھر رہی ہوں
- وہ بولی زندگی تو دائروں کے پھیلنے سے ہے
- میں کہتا ہوں مجھے تم ہنستی گاتی اچھی لگتی ہو
- وہ مجھ سے پوچھتی ہے رات اتنی بے زباں کیوں ہے
- وہ کہتی ہے چلو فرحت ہوا کے ساتھ چلتے ہیں
- محبت میں غموں کی اس قدر یلغار کیوں
- وہ کہتی ہے کہ خوشیوں میں بھی تم تو رونے لگتے ہو
- محبت بے سبب تڑپائے رکھتی ہے
- وہ بولی، دل میں کوئی بے وجہ سا خوف رہتی ہے
- وہ بولی، دل کو کوئی بے یقینی ہے محبت میں
- وہ بولی، بارشوں میں اور زیادہ جاں سلگتی ہے
- وہ بولی، بے سروپا خوا ہشیں بیمار رکھتی ہے
- میں نگار فکر و نگاہ کو کبھی بھول کر
- گھر سے نکلے اگر ہم بہک جائیں گے
- ریت بھری ہے ان آنکھوں میں آنسو سے تم
- سنوار نوک پلک آبروؤں میں خم کردے
- تو مجھ سے تیز چلے گا تو راستہ دوں گا
- سنو پانی میں یہ کس کی صدا ہے
- اداسی کا یہ پتھر آنسوں سے نم نہیں ہوتا
- ہے عجیب شہر کی زندگی
- دالانوں کی دھوپ چھتوں کی شام کہاں
- سات رنگوں کے شامیانے ہیں
- اداسی آسماں ہے دل میرا کتنا اکیلا ہے
- غموں کی آیتیں شب بھر چھتوں پر چلتی ہیں
- صدیوں کی گٹھری سر پر لے جاتی ہے
- آگ کو گلزار کر دے، برف کو دریا کرے
- آئینہ دھوپ کا دریا میں دکھاتا ہے مجھے
- کتابیں رسالے، نہ اخبار پڑھنا
- کہیں پنگھٹوں کی ڈگر نہیں
- پرکھنا مت پرکھنے میں کوئی اپنا نہیں رہتا
- وہ چہرہ ساتھ ساتھ رہا جو ملا نہیں
- تیری جنت سے ہجرت کر رہے ہیں
- اجنبی پیٹروں کے سائے میں محبت ہے بہت
- الف الف ہے اسے شین قاف کرتے نہیں
- سوچا نہیں اچھا برا، دیکھا سنا کچھ بھی نہیں
- یہ غزل کس کی ہے اس مطلع کو پڑھ کر دیکھو
- آنسوؤں میں رچی خوشی کی طرح
- لگی دل کی ہم سے کہی جائے نا
- اچھا تمہارے شہر کا دستور ہو گیا
- میں تو کاغذوں کا گلاب تھا
- یہ اگر انتطام ہے ساقی
- گاؤں مٹ جائیں گے شہر جل جائے گا
- کہیں نہ چھوڑ کے جاؤ بڑا اندھیرا ہے
- کچھ نہیں اور تیرے سوا ، چاہیے
- ہر جنم میں اسی کی چاہت تھے
- اب تیرے میرے بیچ ذرا فاصلہ بھی ہو
- دیکھ لینا کہ کسی دُکھ کی کہانی تو نہیں
- لاکھ دوری ہو مگر عہد نبھاتے رہنا
- اک عمر رہے ساتھ یہ معلوم نہیں تھا
- اِک محبت کے سوا کو ئی نہیں کوئ نہیں
- اک عمر رہے ساتھ یہ معلوم نہیں تھا
- محبت چپ نہیں رہتی
- کبھی سفر تو کبھی شام لے گیا مجھ سے
- چاند کے ساتھ
- اک کہانی
- بے چین مزاجی میں عجب کچھ بھی نہیں تھا
- محبت چپ نہیں رہتی