علی عمران
12-22-2010, 06:24 PM
رنگ لائے گا شہیدوں کا لہو
یہ لہو سُرخی آزادی کے افسانے کی
یہ شفق رنگ لہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہر طرف دھماکے ہو رہے تھے۔ گولیاں برس رہی تھیں۔ توپیں گولے داغ رہی تھیں۔ دشمن کا دباؤ بڑھتا جا رہا تھا۔ پچھلے دنوں کی مسلسل مار نے دشمن کو اپنی پوری قوت کے ساتھ حملہ کرنے پر مجبور کر دیا تھا۔ مرنے یا مارنے کی صورتِ حال عروج پر تھی۔ اچانک پاکستانی مورچے سے ایک فوجی اچھل کر باہر نکلا۔ دوسری جست لگا کر اس نے بھارتی مورچے کو جا لیا۔ ایک سیکنڈ کے دسویں حصے میں اس نے بھارتی مورچے کے اندر کود کر بھارتی فوج کے جاٹ رجمنٹ کے کمانڈر میجر نرائن سنگھ کو چوہے کی طرح دبوچ لیا۔ اس کے ہاتھ سے گن چھینی اور دوسرے لمحے میجر نرائن سنگھ کی لاش چھیتھڑوں میں بٹی پڑی تھی۔ اس کی حیرت سے پھٹی ہوئی آنکھیں اب بھی اس پاکستانی فوجی پر جمی ہوئی تھیں جس کا چہرہ جوش سے سُرخ اور جسم فولاد ہو رہا تھا۔ اے یقین نہ آ رہا تھا کہ جذبے ایسے بے خوف بھی ہوتے ہیں کہ ہر طرف موت کا میدان گرم ہونے پر جان کی پرواہ کئے بغیر دشمن کے گھر میں گھس کر اسے موت کے گھاٹ اتار دینے کا انمول اور بے مثال کارنامہ سر انجام دینے والے جوانوں کو موت بھی سلام کر کے گزر جاتی ہے۔ مردہ میجر نرائن سنگھ نرگ میں جا کر بھی حیران ہو رہا ہو گا کہ اسے کس جاں فروش نے موت کے گھاٹ اتارا تھا جو اسے فنا کرنے کے بعد اس کے مورچے کی تلاشی لے رہا تھا اور بلآخر کچھ لمحوں بعد اس کی ساری اہم فوجی دستاویزات سمیٹ کر جس طرح اس کے مورچے میں آیا تھا اسی بہادری، دلیری اور بے باکی سے دو جستوں میں واپس اپنے مورچے میں لوٹ گیا۔
یہ پاکستانی فوج کے مایہ ناز سپوت میجر شبیر شریف شہید تھے جو اپریل 1943 کو پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق ایک راجپوت گھرانے سے تھا جس کا ماضی میں تعلق ایک ہندو راجپوت خاندان سے تھا۔ بعد میں یہ خاندان حلقہ بگوش اسلام ہوا تو کشمیر کی سکونت ترک کر کے گجرات کے قصبہ کنجاہ میں آباد ہو گیا۔
میجر شبیر شریف کے پردادا میاں محمد بخش ایک صوفی منش آدمی تھے اور دور دور تک اپنے انسان دوست کارناموں کے لئے مشہور تھے۔ ان کے بیٹے میاں غلام حسین اور میاں مہتاب نے اپنے خاندان کی ان روایات کو مرتے دم تک زندہ رکھا۔ میجر شبیر شریف کے والد میجر شریف، میاں مہتاب کے بیٹے تھے۔
میجر محمد شریف نے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد اسلامیہ ہائی سکول کنجاہ ضلع گجرات سے میٹرک کا امتحان پاس کیا اور 1935 میں سگنل کور میں بطور سنگنلر بھرتی ہو گئے۔ ان کی*ڈیوٹی جیل پور میں لگائی گئی جو انگریزوں کے دورِ حکومت میں بھارت کے ملٹری ٹریننگ سنٹرز میں سے بہت بڑا سنٹر مانا جاتا تھا۔
میجر محمد شریف نے یہاں رہ کر بہت سے آرمی کورسز میں کامیابی حاصل کی۔ اس کے بعد کچنر کالج نوکانگ سے منسلک ہو گئے اور فوج کا اعلٰی ترین کورس یعنی سپیشل آرمی کورس کیا۔ اپنی محنت کے بل بوتے پر وہ ایک عام سنگنلر سے ترقی کرتے ہوئے میجر کے عہدے تک پہنچے اور 6 جون 1965 کو بحیثیت میجر ہی ریٹائر ہوئے مگر 2 ماہ بعد ہی 6 ستمبر 1965 کو جب مسلح جارحیت کے مرتکب ہوئے بھارت نے پاکستان پر حملہ کر دیا تو ایمرجنسی رولز کے تحت میجر محمد شریف کی خدمات دوبارہ حاصل کی گئیں۔ اس جنگ میں میجر محمد شریف کے دو بیٹے کیپٹن ممتاز شریف اور میجر شبیر شریف شہید بھی وطن کے دفاع کے لئے دشمن کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح سینہ سپر تھے۔ اس جنگ میں میجر شبیر شریف شہید نے ستارہ جرات اور کیپٹن ممتاز شریف نے ستارہ بسالت حاصل کیا جو ان کی بہادری کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔
میجر شبیر شریف شہید کی خاندانی روایات گواہ ہیں کہ ان کے خاندان کا تقریباََ ہر فرد فوج میں رہا۔ میجر صاحب کی والدہ کے 5 بھائی یعنی میجر صاحب کے ماموں فوج میں مختلف عہدوں پر فائز رہے جبکہ ان کے نانا انگریزوں کے دور میں 1918 تک راجپوتانہ رائفلز سے جمعدار کے عہدے پر رہے۔ میجر صاحب کے بہنوئی میجر سعادت علی خان تھے۔ ان کا تعلق رام پور کے نواب خاندان سے تھا۔ یہ 1971 کی جنگ میں سلیمانکی فاضلکا سیکٹر میں میجر شبیر شریف شہید سے دو سو گز پیچھے ان کے سیکنڈ ان کمانڈ کی حیثیت سے مصروفِ جنگ تھے۔ جب میجر شبیر شریف شہید نے جامِ سہادت نوش کیا تو میجر سعادت علی خان ہی ان کے جسد خاکی کو فوج سے وصول کر کے گھر لائے تھے۔ اس خاندان کی رگوں میں وطن کی خدمت اور فوج میں رہ کر وطن کی حفاظت کا جو سودا سمایا ہوا تھا اس کی کتنی ہی انمٹ مثالیں موجود ہیں۔
میجر شبیر شریف شہید کو ابتدائی تعلیم کے لئے راولپنڈی میں پریزینٹیشن کانونٹ سکول میں داخل کرایا گیا۔ بعد میں جب ان کے والد میجر محمد شریف کا تبادلہ مری ہو گیا تو میجر شبیر شریف شرف سینٹ فرانسس گرامر سکول میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے داخل ہوئے۔ 1959 میں میجر محمد شریف کی ڈیوٹی لاہور میں لگا دی گئی تو میجر محمد شبیر شریف کے لئے سینٹ انتھونی سکول لاہور کی درسگاہ کا انتخاب کیا گیا۔ یہاں سے انہوں نے سینئر کیمبرج کا امتحان نمایاں پوزیشن لے کر پاس کیا اور گورنمنٹ کالج لاہور چلے گئے۔ گونمنٹ کالج میں ابھی ان کو بمشکل چھ ماہ کا عرصہ گزرا تھا کہ انہوں نے فوج میں اپلائی کر دیا اور سلیکشن کے لئے ملٹری سلیکشن بورڈ کے سامنے پیش ہوئے۔ ان کے قدوقامت، گفتگو اور خاندانی پس منظر نے ان کے سلیکٹرز کو بے حد متاثر کیا۔ میجر صاحب کی گونجدار آواز اور تن سازی کے شوق کا مظہر جسم ہر دیکھنے والے کو اپنی طرف متوجہ کر لیتے تھے۔ باوقار، باتمیز میجر شبیر شریف کی شخصیت میں ایک سحر تھا جو ہر آنکھ کو اپنے اوپر مرکوز کر لینے کا منتر جانتا تھا۔ موٹر سائیکل کی سواری ان کا مشغلہ تھا اور وہ ایک خاص انداز میں موٹر سائیکل پر سواری کرتے۔ اسے روک کر پاؤں نیچے رکتے تو کتنے ہی دل دھڑک اٹھتے۔ سیالکوٹ سے کوئٹہ اور پھر واپس کوئٹہ سے سیالکوٹ کا سفر انہوں نے اپنی خطر پسند اور مہماتی طبیعت کی تسکین کے لئے موٹر سائیکل پر کر کے ثابت کر دیا تھا کہ ان کو خطروں سے پیار ہے ان کی فطرت میں ڈر یا خوف نام کی کوئی شے نہیں پائی جاتی۔
کیڈٹ کے طور پر فوج میں بھرتی ہو جانے کے بعد ان کو ملٹری اکیڈمی کاکول بھیج دیا گیا۔ یہاں سے 1965 میں انہوں نے کمیشن حاصل کیا۔ 1970 میں ان کی شادی ایور شائن پینٹس کے ڈائریکٹر میاں محمد افضل کی صاحب زادی کے ساتھ ہو گئی جن کا نام روبینہ بیگم تھا۔
ان کی بیگم محترمہ روبینہ شریف ہوم اکنامکس میں بی اے پاس تھیں۔ ان سے میجر شبیر شریف کا ایک بیٹا پیدا ہوا جس کا نام میجر صاحب نے تیمور شریف رکھا۔ یہ ان کی اپنے والد میجر محمد شریف سے محبت اور عقیدت کی ایک چھوٹی سی مثال ہے۔ فوج میں کمیشن حاصل کرنے کے بعد میجر شبیر شریف شہید نمبر 6 ایف ایف رجمنٹ میں تعینات ہوئے۔ میجر راجہ عزیز بھٹی شہید (نشانِ حیدر) کے بعد یہ دوسرے فوجی تھے جنہوں نے پاسنگ آؤٹ پریڈ کے موقع پر شمشیر اعزازی یعنی SWORD OF HONOUR حاصل کی۔
فوج میں رہتے ہوئے انہوں نے بہت کم عرصے کے دوران مختلف فوجی کورسز پاس کئے جن کا مختصر اندراج یہ ہے۔
1:۔ ویپنز کورس
2:۔ انٹیلیجنس کورس
3:۔ پیراشوٹ کورس
اگلے کئی برس تک میجر شبیر شریف فوج کے مختلف شعبہ جات میں خدمات سر انجام دیتے رہے۔ 1965 میں جب بھارت نے پاکستان پر جارحانہ حملہ کیا تو پاک فوج کے جیالوں میں میجر شبیر شریف بھی شامل تھے۔ اس وقت یہ سیکنڈ لیفٹنینٹ کے عہدے پر تھے اور ان کو ایک کمپنی کی کمان دے کر کشمیر کے محاذ پر بھیجا گیا تھا۔
ستمبر 1965 کو پاکستانی فوج کے کچھ دستوں کو بے حد گھمسان کی جنگ لڑنا پڑی۔ یہ جنگ جوڑیاں کے محاذ پر ہوئی۔
پاک فوج پیش قدمی کرتے ہوئے رات کے دوسرے پہر شمالی پہاڑیوں کے دامن سے گزرتی ہوئی اس جگہ پہنچی جہاں باجرے کے کھیت تھے۔ ان دستوں کا توپ خانہ ابھی پیچھے آ رہا تھا۔ ان دستوں کی قیادت میجر شبیر شریف کے سپرد تھی۔
باجرے کے کھیتوں کے پاس پوزیشن سنبھالے ہوئے ابھی ان لوگوں کو دس پندرہ منٹ گزرے ہوں گے کہ مشرقی سمت سے غبار سا اٹھتا دکھائی دیا۔ تھوڑی ہی دیر بعد دشمن کی بکتر بند گاڑیاں اور ٹینک کچی سڑک پر نمودار ہوئے اور ان کی طرف بڑھنے لگے۔
میجر شبیر شریف کا اندازہ تھا کہ یہ کچی سڑک ان سے تقریباََ دو ہزار گز کے فاصلے پر ہے۔ پاک فوج کے دستے دو حصوں میں تقسیم ہو کر اس محاذ پر پیش قدمی کر رہے تھے اور دونوں کے درمیان ڈیڑھ پونے دو میل کا فاصلہ تھا۔ دشمن کی فوج کا منصوبہ یہ تھا کہ اس ڈیڑھ پونے دو میل کی خالی پٹی میں سے خاموشی کے ساتھ*آگے کی جانب سفر کرتے گجرات پر قبضہ کر لیا جائے اور کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو۔ منصوبہ بے حد مکمل اور بڑا جاندار تھا مگر وہ اس بات سے بے خبر تھے کہ پاک فوج اس جگہ آ چکی ہے اور ان کی نقل و حرکت پر پوری نگاہ رکھے ہوئے ہے۔ دشمن کی بکتر بند گاڑیوں اور ٹینکوں کی ایک کھیپ گزر گئی۔ دوسری کھیپ گزر گئی۔ تیسری کھیپ سامنے آئی تو پاک فوج نے اس پر اچانک حملہ کر دیا۔ دشمن بوکھلا گیا۔ اسے اس حملے کی توقع نہیں تھی۔ اسے سنبھلنے کا موقع نہیں مل رہا تھا۔ دوسری طرف میجر شبیر شریف شہید کے دستوں کو یہ پریشانی تھی کہ ان کے پاس توپیں نہیں تھیں۔ آرٹلری، فوج کے اس حصے میں تھی جو ان سے ڈیڑھ دو میل دور پیش قدمی کر رہا تھا۔ ٹینکوں اور بکتر بند گاڑیوں کو تباہ کرنے کے لئے ان کے پاس صرف راکٹ تھے جن کی محدود تعداد بلآخر محتاط استعمال کے بعد ختم ہو گئی۔ صورتحال ایک دم خطرناک ہو گئی۔
مرکز سے رابطہ کرنے پر میجر شبیر شریف کو جواب ملا کہ فوری طور پر ان کو کمک نہیں مل سکتی۔ اب اہیں اپنے طور پر دشمن کا مقابلہ کرنا تھا۔ اسے روکنا تھا۔ اسے فنا کے گھاٹ اتارنا تھا اور نقصان سے بچنا بھی تھا۔
دشمن کے ٹینک بمشکل ایک ہزار گز دور تھے۔ جب بھی وہ آگے بڑھنا چاہتے پاک فوج کی طرف سے مشین گنیں ان پر موت کا دہانہ کھول دیتیں اور وہ رک جاتے۔ مگر کب تک۔۔۔۔ صرف مشین گنیں ٹینکوں اور بکتر بند گاڑیوں کا راستہ کتنی دیر روک پاتیں۔ میجر شبیر شریف شہید بڑی باریک بینی سے صورتِ حال کو متفکرانہ انداز میں دیکھ رہے تھے اور دشمن کو محض مشین گنوں سے فائرنگ کر کے آگے بڑھنے سے روکے ہوئے تھے۔
دشمن کے ٹینک چیونٹی رفتار سے قدم قدم رینگتے ہوئے بلآخر برساتی نالے کے دوسرے کنارے تک آ پہنچے جو پاک فوج اور ان کے درمیان حائل تھا۔ چھوٹا سا یہ نالہ اس وقت دونوں فوجوں کے درمیان سرحد کا کام دے رہا تھا۔
ایک دم بھارتی ٹینکوں نے تیز رفتاری سے آگے بڑھنا شروع کیا۔ وہ نالہ پار کر کے میجر شبیر شریف شہید اور ان کے جوانوں کو روند ڈالنا چاہتے تھے۔ اور اس کے لئے ان کو محض چند منٹ کی مہلت درکار تھی۔ میجر شبیر شریف شہید نے اس نازک وقت میں برق رفتاری سے کام لیا۔ فوری فیصلہ کیا اور چھوٹے ہتھیاروں سے دشمن کے ٹینکوں کو نشانہ بنانے کے لئے آگے بڑھے۔
اسی وقت ان کو اپنے دائیں طرف سے پاک فوج کی ایک گاڑی آتی دکھائی دی جس پر دو چھوٹی یعنی ہلکی توپیں موجود تھیں۔ میجر صاحب نے جوانوں کو حکم دیا اور چند لمحوں میں دونوں توپیں گاڑی سے اتار کر دائیں بائیں دو موزوں جگہوں پر نصب کر دی گئیں۔
جو توپ بائیں طرف نصب کی گئی اس کا توپچی سامنے دشمن کے ٹینکوں کی تعداد اور رفتار دیکھ کر نروس ہو گیا۔ اس کو گھبراہٹ کے عالم میں ٹینکوں پر فائر کرنا محال ہو رہا تھا۔ یہ گھبراہٹ اس کے لئے جان لیوا ثابت ہوئی۔ دشمن نے توپوں کی موجودگی کی خبر ہوتے ہی بمباری شروع کر دی۔ ایک گولہ دوسرے ہی لمحے اس توپچی پر آ گرا۔ توپچی اور گاڑی کا ڈرائیور موقع پر ہی شہید ہو گئے۔ جبکہ دائیں طرف نصب توپ دشمن پر مسلسل آگ اگل رہی تھی۔ اس کا گنر دائیں بائیں سے دشمن پر گولے داغ رہا تھا۔ اور اسے سانس لینے کی مہلت نہ دی۔ اس گولہ باری کا ایک مثبت اثر یہ ہوا کہ دشمن کی پیدل فوج پیچھے ہی دبک گئی۔ اس کو آگے بڑھنے میں موت دکھائی دے رہی تھی، اس لئے وہ ٹینکوں اور بکتر بند گاڑیوں کے پیچھے چھپ کر فائرنگ کرتی رہی۔
ڈیڑھ سے دو گھنٹے تک شدید گولہ باری ہوئی۔ میجر شبیر شریف نے بھارتی فوج کے 4 ٹینک اڑا دئیے۔ دو بکتر بند گاڑیاں اڑا دیں گئیں۔ زخمیوں اور ہلاک ہونے والوں کو چھوڑ کر دشمن نے فرار کی راہ اختیار کی اور میدان میجر شبیر شریف کے ہاتھ رہا۔
چونڈہ ۔۔۔۔۔۔۔ ضلع سیالکوٹ کا ایک سرحدی گاؤں ہے جہاں ایک دن میں ٹینکوں کی سب سے بڑی جنگ لڑی گئی اور چونڈہ کو جنگِ ستمبر 1965 کے حوالے سے دنیا بھر میں بے پناہ شہرت و اہمیت حاصل ہو گئی۔ میجر شبیر شریف شہید نے اس محاذ پر بھی دادِ شجاعت دی اور اپنے وطن کی حفاظت کے لئے جان کی بازی لگا دی۔
سیالکوٹ سیکٹر کا محاز دشمن کی پلاننگ کے تحت بہت زیادہ پھیلا ہوا تھا۔ چپراڑ سے لے کر جسٹر تک کا 24 میل کا علاقہ میدانِ کارزار بنا ہوا تھا۔ بھارتی فوج کی پلاننگ یہ تھی کہ چونڈہ کو ہر قیمت پر فتح کر لیا جائے تاکہ ڈسکہ اور گوجرانوالہ کو بآسانی نشانہ بنایا جا سکے۔ اس کے لئے اس نے اپنی بہترین فوج اور ٹینکوں کو جنگ میں جھونک دیا۔ اگر وہ چونڈہ پر قبضہ کر لیتا تو بڑی آسانی سے گوجرانوالہ کے نزدیک جرنیلی سٹرک کو کاٹ سکتا تھا۔
چونڈہ کا محلِ وقوع یہ ہے کہ سیالکوٹ سے پندرہ میل دور جنوب مشرق میں پسرور سے ڈسکہ اور گوجرانوالہ کے راستے پر یہ بے حد اہم جگہ پر واقع ہے۔ اگر دشمن چونڈہ کو سر کر لیتا تو اسے دو فائدے فوری طور پر حاصل ہو جاتے:
1: سیالکوٹ اس کے قبضے میں چلا جاتا۔
2:۔ لاہور، وطنِ عزیز کے دوسرے علاقوں سے مکمل طور پر کٹ جاتا۔
یہ لہو سُرخی آزادی کے افسانے کی
یہ شفق رنگ لہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہر طرف دھماکے ہو رہے تھے۔ گولیاں برس رہی تھیں۔ توپیں گولے داغ رہی تھیں۔ دشمن کا دباؤ بڑھتا جا رہا تھا۔ پچھلے دنوں کی مسلسل مار نے دشمن کو اپنی پوری قوت کے ساتھ حملہ کرنے پر مجبور کر دیا تھا۔ مرنے یا مارنے کی صورتِ حال عروج پر تھی۔ اچانک پاکستانی مورچے سے ایک فوجی اچھل کر باہر نکلا۔ دوسری جست لگا کر اس نے بھارتی مورچے کو جا لیا۔ ایک سیکنڈ کے دسویں حصے میں اس نے بھارتی مورچے کے اندر کود کر بھارتی فوج کے جاٹ رجمنٹ کے کمانڈر میجر نرائن سنگھ کو چوہے کی طرح دبوچ لیا۔ اس کے ہاتھ سے گن چھینی اور دوسرے لمحے میجر نرائن سنگھ کی لاش چھیتھڑوں میں بٹی پڑی تھی۔ اس کی حیرت سے پھٹی ہوئی آنکھیں اب بھی اس پاکستانی فوجی پر جمی ہوئی تھیں جس کا چہرہ جوش سے سُرخ اور جسم فولاد ہو رہا تھا۔ اے یقین نہ آ رہا تھا کہ جذبے ایسے بے خوف بھی ہوتے ہیں کہ ہر طرف موت کا میدان گرم ہونے پر جان کی پرواہ کئے بغیر دشمن کے گھر میں گھس کر اسے موت کے گھاٹ اتار دینے کا انمول اور بے مثال کارنامہ سر انجام دینے والے جوانوں کو موت بھی سلام کر کے گزر جاتی ہے۔ مردہ میجر نرائن سنگھ نرگ میں جا کر بھی حیران ہو رہا ہو گا کہ اسے کس جاں فروش نے موت کے گھاٹ اتارا تھا جو اسے فنا کرنے کے بعد اس کے مورچے کی تلاشی لے رہا تھا اور بلآخر کچھ لمحوں بعد اس کی ساری اہم فوجی دستاویزات سمیٹ کر جس طرح اس کے مورچے میں آیا تھا اسی بہادری، دلیری اور بے باکی سے دو جستوں میں واپس اپنے مورچے میں لوٹ گیا۔
یہ پاکستانی فوج کے مایہ ناز سپوت میجر شبیر شریف شہید تھے جو اپریل 1943 کو پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق ایک راجپوت گھرانے سے تھا جس کا ماضی میں تعلق ایک ہندو راجپوت خاندان سے تھا۔ بعد میں یہ خاندان حلقہ بگوش اسلام ہوا تو کشمیر کی سکونت ترک کر کے گجرات کے قصبہ کنجاہ میں آباد ہو گیا۔
میجر شبیر شریف کے پردادا میاں محمد بخش ایک صوفی منش آدمی تھے اور دور دور تک اپنے انسان دوست کارناموں کے لئے مشہور تھے۔ ان کے بیٹے میاں غلام حسین اور میاں مہتاب نے اپنے خاندان کی ان روایات کو مرتے دم تک زندہ رکھا۔ میجر شبیر شریف کے والد میجر شریف، میاں مہتاب کے بیٹے تھے۔
میجر محمد شریف نے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد اسلامیہ ہائی سکول کنجاہ ضلع گجرات سے میٹرک کا امتحان پاس کیا اور 1935 میں سگنل کور میں بطور سنگنلر بھرتی ہو گئے۔ ان کی*ڈیوٹی جیل پور میں لگائی گئی جو انگریزوں کے دورِ حکومت میں بھارت کے ملٹری ٹریننگ سنٹرز میں سے بہت بڑا سنٹر مانا جاتا تھا۔
میجر محمد شریف نے یہاں رہ کر بہت سے آرمی کورسز میں کامیابی حاصل کی۔ اس کے بعد کچنر کالج نوکانگ سے منسلک ہو گئے اور فوج کا اعلٰی ترین کورس یعنی سپیشل آرمی کورس کیا۔ اپنی محنت کے بل بوتے پر وہ ایک عام سنگنلر سے ترقی کرتے ہوئے میجر کے عہدے تک پہنچے اور 6 جون 1965 کو بحیثیت میجر ہی ریٹائر ہوئے مگر 2 ماہ بعد ہی 6 ستمبر 1965 کو جب مسلح جارحیت کے مرتکب ہوئے بھارت نے پاکستان پر حملہ کر دیا تو ایمرجنسی رولز کے تحت میجر محمد شریف کی خدمات دوبارہ حاصل کی گئیں۔ اس جنگ میں میجر محمد شریف کے دو بیٹے کیپٹن ممتاز شریف اور میجر شبیر شریف شہید بھی وطن کے دفاع کے لئے دشمن کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح سینہ سپر تھے۔ اس جنگ میں میجر شبیر شریف شہید نے ستارہ جرات اور کیپٹن ممتاز شریف نے ستارہ بسالت حاصل کیا جو ان کی بہادری کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔
میجر شبیر شریف شہید کی خاندانی روایات گواہ ہیں کہ ان کے خاندان کا تقریباََ ہر فرد فوج میں رہا۔ میجر صاحب کی والدہ کے 5 بھائی یعنی میجر صاحب کے ماموں فوج میں مختلف عہدوں پر فائز رہے جبکہ ان کے نانا انگریزوں کے دور میں 1918 تک راجپوتانہ رائفلز سے جمعدار کے عہدے پر رہے۔ میجر صاحب کے بہنوئی میجر سعادت علی خان تھے۔ ان کا تعلق رام پور کے نواب خاندان سے تھا۔ یہ 1971 کی جنگ میں سلیمانکی فاضلکا سیکٹر میں میجر شبیر شریف شہید سے دو سو گز پیچھے ان کے سیکنڈ ان کمانڈ کی حیثیت سے مصروفِ جنگ تھے۔ جب میجر شبیر شریف شہید نے جامِ سہادت نوش کیا تو میجر سعادت علی خان ہی ان کے جسد خاکی کو فوج سے وصول کر کے گھر لائے تھے۔ اس خاندان کی رگوں میں وطن کی خدمت اور فوج میں رہ کر وطن کی حفاظت کا جو سودا سمایا ہوا تھا اس کی کتنی ہی انمٹ مثالیں موجود ہیں۔
میجر شبیر شریف شہید کو ابتدائی تعلیم کے لئے راولپنڈی میں پریزینٹیشن کانونٹ سکول میں داخل کرایا گیا۔ بعد میں جب ان کے والد میجر محمد شریف کا تبادلہ مری ہو گیا تو میجر شبیر شریف شرف سینٹ فرانسس گرامر سکول میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے داخل ہوئے۔ 1959 میں میجر محمد شریف کی ڈیوٹی لاہور میں لگا دی گئی تو میجر محمد شبیر شریف کے لئے سینٹ انتھونی سکول لاہور کی درسگاہ کا انتخاب کیا گیا۔ یہاں سے انہوں نے سینئر کیمبرج کا امتحان نمایاں پوزیشن لے کر پاس کیا اور گورنمنٹ کالج لاہور چلے گئے۔ گونمنٹ کالج میں ابھی ان کو بمشکل چھ ماہ کا عرصہ گزرا تھا کہ انہوں نے فوج میں اپلائی کر دیا اور سلیکشن کے لئے ملٹری سلیکشن بورڈ کے سامنے پیش ہوئے۔ ان کے قدوقامت، گفتگو اور خاندانی پس منظر نے ان کے سلیکٹرز کو بے حد متاثر کیا۔ میجر صاحب کی گونجدار آواز اور تن سازی کے شوق کا مظہر جسم ہر دیکھنے والے کو اپنی طرف متوجہ کر لیتے تھے۔ باوقار، باتمیز میجر شبیر شریف کی شخصیت میں ایک سحر تھا جو ہر آنکھ کو اپنے اوپر مرکوز کر لینے کا منتر جانتا تھا۔ موٹر سائیکل کی سواری ان کا مشغلہ تھا اور وہ ایک خاص انداز میں موٹر سائیکل پر سواری کرتے۔ اسے روک کر پاؤں نیچے رکتے تو کتنے ہی دل دھڑک اٹھتے۔ سیالکوٹ سے کوئٹہ اور پھر واپس کوئٹہ سے سیالکوٹ کا سفر انہوں نے اپنی خطر پسند اور مہماتی طبیعت کی تسکین کے لئے موٹر سائیکل پر کر کے ثابت کر دیا تھا کہ ان کو خطروں سے پیار ہے ان کی فطرت میں ڈر یا خوف نام کی کوئی شے نہیں پائی جاتی۔
کیڈٹ کے طور پر فوج میں بھرتی ہو جانے کے بعد ان کو ملٹری اکیڈمی کاکول بھیج دیا گیا۔ یہاں سے 1965 میں انہوں نے کمیشن حاصل کیا۔ 1970 میں ان کی شادی ایور شائن پینٹس کے ڈائریکٹر میاں محمد افضل کی صاحب زادی کے ساتھ ہو گئی جن کا نام روبینہ بیگم تھا۔
ان کی بیگم محترمہ روبینہ شریف ہوم اکنامکس میں بی اے پاس تھیں۔ ان سے میجر شبیر شریف کا ایک بیٹا پیدا ہوا جس کا نام میجر صاحب نے تیمور شریف رکھا۔ یہ ان کی اپنے والد میجر محمد شریف سے محبت اور عقیدت کی ایک چھوٹی سی مثال ہے۔ فوج میں کمیشن حاصل کرنے کے بعد میجر شبیر شریف شہید نمبر 6 ایف ایف رجمنٹ میں تعینات ہوئے۔ میجر راجہ عزیز بھٹی شہید (نشانِ حیدر) کے بعد یہ دوسرے فوجی تھے جنہوں نے پاسنگ آؤٹ پریڈ کے موقع پر شمشیر اعزازی یعنی SWORD OF HONOUR حاصل کی۔
فوج میں رہتے ہوئے انہوں نے بہت کم عرصے کے دوران مختلف فوجی کورسز پاس کئے جن کا مختصر اندراج یہ ہے۔
1:۔ ویپنز کورس
2:۔ انٹیلیجنس کورس
3:۔ پیراشوٹ کورس
اگلے کئی برس تک میجر شبیر شریف فوج کے مختلف شعبہ جات میں خدمات سر انجام دیتے رہے۔ 1965 میں جب بھارت نے پاکستان پر جارحانہ حملہ کیا تو پاک فوج کے جیالوں میں میجر شبیر شریف بھی شامل تھے۔ اس وقت یہ سیکنڈ لیفٹنینٹ کے عہدے پر تھے اور ان کو ایک کمپنی کی کمان دے کر کشمیر کے محاذ پر بھیجا گیا تھا۔
ستمبر 1965 کو پاکستانی فوج کے کچھ دستوں کو بے حد گھمسان کی جنگ لڑنا پڑی۔ یہ جنگ جوڑیاں کے محاذ پر ہوئی۔
پاک فوج پیش قدمی کرتے ہوئے رات کے دوسرے پہر شمالی پہاڑیوں کے دامن سے گزرتی ہوئی اس جگہ پہنچی جہاں باجرے کے کھیت تھے۔ ان دستوں کا توپ خانہ ابھی پیچھے آ رہا تھا۔ ان دستوں کی قیادت میجر شبیر شریف کے سپرد تھی۔
باجرے کے کھیتوں کے پاس پوزیشن سنبھالے ہوئے ابھی ان لوگوں کو دس پندرہ منٹ گزرے ہوں گے کہ مشرقی سمت سے غبار سا اٹھتا دکھائی دیا۔ تھوڑی ہی دیر بعد دشمن کی بکتر بند گاڑیاں اور ٹینک کچی سڑک پر نمودار ہوئے اور ان کی طرف بڑھنے لگے۔
میجر شبیر شریف کا اندازہ تھا کہ یہ کچی سڑک ان سے تقریباََ دو ہزار گز کے فاصلے پر ہے۔ پاک فوج کے دستے دو حصوں میں تقسیم ہو کر اس محاذ پر پیش قدمی کر رہے تھے اور دونوں کے درمیان ڈیڑھ پونے دو میل کا فاصلہ تھا۔ دشمن کی فوج کا منصوبہ یہ تھا کہ اس ڈیڑھ پونے دو میل کی خالی پٹی میں سے خاموشی کے ساتھ*آگے کی جانب سفر کرتے گجرات پر قبضہ کر لیا جائے اور کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو۔ منصوبہ بے حد مکمل اور بڑا جاندار تھا مگر وہ اس بات سے بے خبر تھے کہ پاک فوج اس جگہ آ چکی ہے اور ان کی نقل و حرکت پر پوری نگاہ رکھے ہوئے ہے۔ دشمن کی بکتر بند گاڑیوں اور ٹینکوں کی ایک کھیپ گزر گئی۔ دوسری کھیپ گزر گئی۔ تیسری کھیپ سامنے آئی تو پاک فوج نے اس پر اچانک حملہ کر دیا۔ دشمن بوکھلا گیا۔ اسے اس حملے کی توقع نہیں تھی۔ اسے سنبھلنے کا موقع نہیں مل رہا تھا۔ دوسری طرف میجر شبیر شریف شہید کے دستوں کو یہ پریشانی تھی کہ ان کے پاس توپیں نہیں تھیں۔ آرٹلری، فوج کے اس حصے میں تھی جو ان سے ڈیڑھ دو میل دور پیش قدمی کر رہا تھا۔ ٹینکوں اور بکتر بند گاڑیوں کو تباہ کرنے کے لئے ان کے پاس صرف راکٹ تھے جن کی محدود تعداد بلآخر محتاط استعمال کے بعد ختم ہو گئی۔ صورتحال ایک دم خطرناک ہو گئی۔
مرکز سے رابطہ کرنے پر میجر شبیر شریف کو جواب ملا کہ فوری طور پر ان کو کمک نہیں مل سکتی۔ اب اہیں اپنے طور پر دشمن کا مقابلہ کرنا تھا۔ اسے روکنا تھا۔ اسے فنا کے گھاٹ اتارنا تھا اور نقصان سے بچنا بھی تھا۔
دشمن کے ٹینک بمشکل ایک ہزار گز دور تھے۔ جب بھی وہ آگے بڑھنا چاہتے پاک فوج کی طرف سے مشین گنیں ان پر موت کا دہانہ کھول دیتیں اور وہ رک جاتے۔ مگر کب تک۔۔۔۔ صرف مشین گنیں ٹینکوں اور بکتر بند گاڑیوں کا راستہ کتنی دیر روک پاتیں۔ میجر شبیر شریف شہید بڑی باریک بینی سے صورتِ حال کو متفکرانہ انداز میں دیکھ رہے تھے اور دشمن کو محض مشین گنوں سے فائرنگ کر کے آگے بڑھنے سے روکے ہوئے تھے۔
دشمن کے ٹینک چیونٹی رفتار سے قدم قدم رینگتے ہوئے بلآخر برساتی نالے کے دوسرے کنارے تک آ پہنچے جو پاک فوج اور ان کے درمیان حائل تھا۔ چھوٹا سا یہ نالہ اس وقت دونوں فوجوں کے درمیان سرحد کا کام دے رہا تھا۔
ایک دم بھارتی ٹینکوں نے تیز رفتاری سے آگے بڑھنا شروع کیا۔ وہ نالہ پار کر کے میجر شبیر شریف شہید اور ان کے جوانوں کو روند ڈالنا چاہتے تھے۔ اور اس کے لئے ان کو محض چند منٹ کی مہلت درکار تھی۔ میجر شبیر شریف شہید نے اس نازک وقت میں برق رفتاری سے کام لیا۔ فوری فیصلہ کیا اور چھوٹے ہتھیاروں سے دشمن کے ٹینکوں کو نشانہ بنانے کے لئے آگے بڑھے۔
اسی وقت ان کو اپنے دائیں طرف سے پاک فوج کی ایک گاڑی آتی دکھائی دی جس پر دو چھوٹی یعنی ہلکی توپیں موجود تھیں۔ میجر صاحب نے جوانوں کو حکم دیا اور چند لمحوں میں دونوں توپیں گاڑی سے اتار کر دائیں بائیں دو موزوں جگہوں پر نصب کر دی گئیں۔
جو توپ بائیں طرف نصب کی گئی اس کا توپچی سامنے دشمن کے ٹینکوں کی تعداد اور رفتار دیکھ کر نروس ہو گیا۔ اس کو گھبراہٹ کے عالم میں ٹینکوں پر فائر کرنا محال ہو رہا تھا۔ یہ گھبراہٹ اس کے لئے جان لیوا ثابت ہوئی۔ دشمن نے توپوں کی موجودگی کی خبر ہوتے ہی بمباری شروع کر دی۔ ایک گولہ دوسرے ہی لمحے اس توپچی پر آ گرا۔ توپچی اور گاڑی کا ڈرائیور موقع پر ہی شہید ہو گئے۔ جبکہ دائیں طرف نصب توپ دشمن پر مسلسل آگ اگل رہی تھی۔ اس کا گنر دائیں بائیں سے دشمن پر گولے داغ رہا تھا۔ اور اسے سانس لینے کی مہلت نہ دی۔ اس گولہ باری کا ایک مثبت اثر یہ ہوا کہ دشمن کی پیدل فوج پیچھے ہی دبک گئی۔ اس کو آگے بڑھنے میں موت دکھائی دے رہی تھی، اس لئے وہ ٹینکوں اور بکتر بند گاڑیوں کے پیچھے چھپ کر فائرنگ کرتی رہی۔
ڈیڑھ سے دو گھنٹے تک شدید گولہ باری ہوئی۔ میجر شبیر شریف نے بھارتی فوج کے 4 ٹینک اڑا دئیے۔ دو بکتر بند گاڑیاں اڑا دیں گئیں۔ زخمیوں اور ہلاک ہونے والوں کو چھوڑ کر دشمن نے فرار کی راہ اختیار کی اور میدان میجر شبیر شریف کے ہاتھ رہا۔
چونڈہ ۔۔۔۔۔۔۔ ضلع سیالکوٹ کا ایک سرحدی گاؤں ہے جہاں ایک دن میں ٹینکوں کی سب سے بڑی جنگ لڑی گئی اور چونڈہ کو جنگِ ستمبر 1965 کے حوالے سے دنیا بھر میں بے پناہ شہرت و اہمیت حاصل ہو گئی۔ میجر شبیر شریف شہید نے اس محاذ پر بھی دادِ شجاعت دی اور اپنے وطن کی حفاظت کے لئے جان کی بازی لگا دی۔
سیالکوٹ سیکٹر کا محاز دشمن کی پلاننگ کے تحت بہت زیادہ پھیلا ہوا تھا۔ چپراڑ سے لے کر جسٹر تک کا 24 میل کا علاقہ میدانِ کارزار بنا ہوا تھا۔ بھارتی فوج کی پلاننگ یہ تھی کہ چونڈہ کو ہر قیمت پر فتح کر لیا جائے تاکہ ڈسکہ اور گوجرانوالہ کو بآسانی نشانہ بنایا جا سکے۔ اس کے لئے اس نے اپنی بہترین فوج اور ٹینکوں کو جنگ میں جھونک دیا۔ اگر وہ چونڈہ پر قبضہ کر لیتا تو بڑی آسانی سے گوجرانوالہ کے نزدیک جرنیلی سٹرک کو کاٹ سکتا تھا۔
چونڈہ کا محلِ وقوع یہ ہے کہ سیالکوٹ سے پندرہ میل دور جنوب مشرق میں پسرور سے ڈسکہ اور گوجرانوالہ کے راستے پر یہ بے حد اہم جگہ پر واقع ہے۔ اگر دشمن چونڈہ کو سر کر لیتا تو اسے دو فائدے فوری طور پر حاصل ہو جاتے:
1: سیالکوٹ اس کے قبضے میں چلا جاتا۔
2:۔ لاہور، وطنِ عزیز کے دوسرے علاقوں سے مکمل طور پر کٹ جاتا۔