علی عمران
12-31-2010, 06:17 PM
جس کے ہر قطرے میں خورشید کئی
جس کی ہر بوند میں اک صبح نئی
دور جس صبح درخشاں سے اندھیرا ہو گا
رات کٹ جائے گی گُل رنگ سویرا ہو گا
رنگ لائے گا شہیدوں کا لہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کرنل طفیل محمد نے اپنے سامنے کھڑے بائیس تئیس سالہ فوجی جوان کا سیلوٹ وصول کیا اور دبنگ لہجے میں پوچھا:
“کیا بات ہے جوان؟“
“ سر۔۔۔۔۔۔۔۔“ جوان نے مخصوص فوجی لہجے میں کہا۔ “ مجھے پتہ چلا ہے کہ آپ کو اپنے جوانوں کو اسلحہ سپلائی کے لئے رضاکارانہ خدمت کی ضرورت ہے؟“
“ ہاں۔۔۔۔۔ درست ہے۔۔۔۔“ کرنل صاحب نے اسے غور سے دیکھا۔
“سر۔۔۔۔میں اس خدمت کے لئے خود کو پیش کرتا ہوں!“
“تم کس رجمنٹ سے ہو جوان؟“
“لانسر رجمنٹ سے سر!“
“ مگر تم خاص طور پر یہ کام کیوں کرنا چاہتے ہو؟“
“ میں محاذ سے دور اپنی گاڑی میں خاموش نہیں بیٹھ سکتا سر۔۔۔۔ میں اپنے جوانوں کو اسلحہ سپلائی کر کے اپنا فرض ادا کرنا چاہتا ہوں۔“
“ اور کچھ؟“ کرنل صاحب نے متاثر ہو کر پوچھا۔
“ نو سر۔“ جوان نے بلند آواز میں جواب دیا۔
“ پرمیشن گرانٹڈ۔“
“ تھینک یو سر۔“ جوان کے چہرے پر خوشی کی سرخی چھلک اٹھی۔ اس نے ایڑیاں بجا کر سیلوٹ کیا اور متعلقہ شعبے کی طرف بڑھ گیا۔ کچھ دیر بعد وہ اسلحہ کی گاڑی لے کر اپنے فوجیوں کی طرف روانہ ہو گیا جو دشمن کے سامنے سینہ سپر تھے۔ اسلحہ کی سپلائی اس کی ڈیوٹی نہ تھی مگر وہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہنے کا قائل نہ تھا۔
یہ فوجی جوان سوار محمد حسین شہید تھے جو 18 جون 1948 کے دن ڈھوک پیر بخش میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق جنجوعہ راجپوت خاندان سے تھا جو پندرہ سے بارہ میل دور ڈھوک میں عرصہ سے آباد تھے۔ ان کے خاندان کے اکثر لوگوں نے فوج میں ملازمت کی اور اعلٰی عہدوں پر فائز رہے۔ ان کے نانا حوالدار احمد خان نے پہلی جنگ عظیم میں برطانوی حکومت کے دور میں اعلٰی خدمات انجام دینے پر چار میڈل حاصل کئے۔ ان کے ایک خاندانی عزیز شہامد خان نے دوسری جنگِ عظیم میں فوجی خدمات پر وکٹوریہ کراس حاصل کیا تھا۔ ان کے والد روز علی زمیندار تھے اور ڈھوک ہی میں کھیتی باڑی کرتے تھے۔
سوار محمد حسین شہید نے قرآن پاک گھر میں ختم کیا اور پرائمری سکول جھنگ پھیرو میں ابتدائی تعلیم کے لئے داخل کرا دئیے گئے۔ یہاں سے پانچویں جماعت پاس کرنے کے بعد دیوی ہائی سکول سے انہوں نے میٹرک کا امتحان دیا مگر ایک مضمون میں فیل ہو گئے۔
اسی دوران 1965 کی جنگ ستمبر چھڑ گئی۔ گھر والوں نے بہت اصرار کیا کہ سوار محمد حسین تعلیمی سلسلہ جاری رکھیں مگر انہوں نے آگے پڑھنے سے انکار کر دیا۔ 1966 میں جاملی کے مقام پر فوج میں عام بھرتی کا اعلان کیا گیا۔ سوار محمد حسین اپنے ایک دوست دل پذیر کے ساتھ جاملی ریسٹ ہاؤس میں ریکروٹنگ آفیسر کے سامنے بھرتی کی غرض سے پیش ہوئے۔ دونوں کو منتخب کر لیا گیا۔ سوار محمد حسین کی نیلی آنکھوں، کسرتی بدن اور اخلاق سے بھرپور گفتگو نے ریکروٹنگ آفیسر کو بہت متاثر کیا اور ان کی انہی خوبیوں نے انہیں فوجی سپاہی بھرتی ہونے میں مدد بھی دی۔
1968 میں سوار محمد حسین کی شادی ان کی خالہ زاد ارزاں بی بی سے کر دی گئی۔ ارزاں بی بی سے سوار محمد حسین کے دو بچے پیدا ہوئے۔ پہلے بیٹی رخسانہ اور بعد میں بیٹا منور محمد۔ بیٹے کی پیدائش کے وقت وہ سیالکوٹ میں تعینات تھے۔ اس خوشی میں انہوں نے پوری یونٹ کو مٹھائی کھلائی تھی۔
طبعاََ سوار محمد حسین نڈر، بے باک اور بہادر تھے۔ مطالعے کا ذوق تھا اور دینی کُتب بڑے شوق و اہتمام سے پڑھتے تھے۔ دودھ، دہی، لسی کے شوقین تھے اور خوش مزاجی و خوش اخلاقی ان کی گھٹی میں پڑی تھی۔
دینی رحجان نے ان کو بزرگانِ دین کی عقیدت سے لبریز رکھا۔ درویش منش سوار محمد حسین جب کبھی گاؤں آتے تو اپنے مرشد کی خدمت میں ضرور حاضر ہوتے۔ صوم و صلٰوۃ کی پابندی ایک ایسا وصف تھا جو ان کو دوسروں سے ممتاز کرتا تھا۔
1971 کی جنگ شروع ہوئی تو سوار محمد حسین شہید اس وقت شکر گڑھ سیکٹر میں تھے۔ ان کا یونٹ موضع “ باہر“ کے گاؤں میں متعین تھا۔ اس مقام پر سوار محمد حسین نے اپنے فوجی جوانوں کو اسلحہ سپلائی کے فرائض بڑی تندہی، مستعدی اور جوش سے ادا کئے حالانکہ یہ کام ان کی ڈیوٹی میں شامل نہ تھا۔ وہ تو گاڑی میں وائرلیس پر بیٹھے صرف احکامات وصول کرنے کے پابند تھے مگر انہیں خالی بیٹھے رہنے سے اس وقت شدید الجھن ہونے لگی جب وہ دوسرے لوگوں کو سر گرمی سے ادھر ادھر آتے جاتے اور لہو گرم رکھنے کے حامل کاموں میں مصروف دیکھتے، بالآخر وہ رہ نہ سکے اور اپنے کمانڈنگ آفیسر کرنل طفیل محمد کے پاس جا پہنچے اور خصوصی درخواست کر کے اپنی ڈیوٹی رضاکارانہ طور پر اسلحہ سپلائی پر لگوا لی تاکہ وہ عملی طور پر بھی جنگ میں حصہ لے سکیں۔
جب کمانڈنگ آفیسر کے خصوصی احکامات پر انہیں اسلحہ سپلائی کے فرائض تفویض کئے گئے تو ساتھ ہی ایک سٹین گن بھی ان کے ہاتھ میں تھما دی گئی تاکہ دوران ادائیگی فرض وہ اپنی حفاظت اور دشمن کی مرمت کر سکیں۔ یوں اسلحہ سے لیس سوار محمد حسین نے جنگ 1971 میں عملی جہاد کے میدان میں قدم رکھ دیا۔
کمانڈنگ آفیسر کرنل طفیل محمد کو اعلٰی حکام نے اس روز یہ حکم دیا کہ نالہ ڈیک اور بیئیں کے درمیان 14 میل کے ایریا میں اپنی پوزیشنیں مستحکم کر لیں۔ فوجی نقطہ نظر سے یہ کام بے حد اہم اور عملی طور پر بے حد مشکل تھا کیونکہ دشمن کی شدید گولہ باری میں ہر قدم پر خطرہ ہی خطرہ تھا مگر۔۔۔۔۔۔۔ پاک فوج کے جوان کب کسی بھی مشکل کو خاطر میں لاتے ہیں۔ انہوں نے اس ناممکن کو بھی ممکن کر دکھایا اور فوجی حکام کے عندیے کی تکمیل شروع ہو گئی۔
جنگ کے دوران حربی مصلحتوں کا تقاضہ یہ تھا کہ دشمن کو اس علاقے سے دور روک کر رکھا جائے۔ چنانچہ تعداد میں کہیں زیادہ اور جدید اسلحہ سے لیس بھارتی فوج کو 5 سے 9 دسمبر 1971 تک اس علاقے کے پار اس طرح روکے رکھا کہ وہ ایک قدم آگے نہ بڑھ سکےاس دوران دشمن نے بارہا حملے کئے۔ مسلسل دباؤ بڑھاتا رہا مگر تابڑ توڑ حملوں کے باوجود اسے ہر بار منہ کی کھانا پڑی۔ پسپائی جیسے اس کے نصیبوں میں لکھی تھی جو ہر بار اسے مزید پیچھے دھکیل دیتی۔
سوار محمد حسین اس عرصے میں بڑی سرگرمی کے ساتھ دشمن کے ٹھکانوں کا پتہ لگانے میں مصروف رہے۔ ان کے جوش و جذبہ کا عالم یہ تھا کہ ایک دن تن تنہا ایک مورچے میں بیٹھ کر دشمن پر دھواں دھار فائرنگ شروع کر دی۔ ان کی جان اس سارے عرصے میں مسلسل خطرے میں تھی مگر جب وہ اپنے مورچے سے نکل کر اپنے یونٹ میں واپس آئے تو دشمن کے درجن بھر فوجیوں کو ہلاک کر چکے تھے۔
واپس آ کر انہوں نے اپنے کمانڈنگ آفیسر کو بتایا کہ وہ دشمن کے درجن بھر سے زائد سپاہیوں کو جہنم رسید کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی پوزیشن کا پورا نقشہ بھی بنا لائے ہیں تو کرنل طفیل محمد نے انہیں شاباش دی۔ پھر ان کی بتائی ہوئی پوزیشن کے مطابق دشمن کو نشانے پر رکھا گیا تو اسے ایسا جانی و مالی نقصان پہنچا جس میں ٹینکوں کی تباہی، بارود کی بربادی اور دوسرے اسلحے کا زیاں شامل تھا۔ اس معرکے میں سوار محمد حسین نے دشمن کے 16 شرمن اور سنچورین ٹینک خود تباہ کئے جو ایک بہت بڑا کارنامہ تھا۔
اسی روز پاک فوج نے کجگل کے مورچے پر قبضہ کر لیا۔ دشمن سر توڑ کوشش کے باوجود یہ مورچہ واپس نہ لے سکا۔ اس دوران ہرڑ کلاں اور ہرڑ خورد کے بالمقابل 2500 گز کے وسیع و عریض علاقے میں پاکستانی فوج کے صرف تین سکواڈرن تھے جو اپنے سے کئی گنا بڑی بھارتی فوج پر مسلسل ضرب لگا رہے تھے۔ اسے نقصان پہنچا رہے تھے۔ اس کی آگے بڑھنے اور دوبارہ قبضہ حاصل کرنے کی ہر کوشش کو ناکام بنا رہے تھے۔ ان میں سے درمیانی سکواڈرن میں سوار محمد حسین بھی شامل تھے اور وہ اپنی گن سے دشمن کو تاک تاک کر نشانہ بنا رہے تھے۔
صورتِ حال کا تقاضہ اب یہ تھا کہ پاک فوج نالہ چو اور اس ے ملے ہوئے دیگر دو نالوں پر مورچہ بندی کر کے اپنی پوزیشن مستحکم کرے ورنہ دشمن کا بڑھتا ہوا دباؤ کسی بھی وقت ناگہانی صورتحال کا جنم دے سکتا تھا۔ اس کی پیش قدمی اگر شروع ہو جاتی تو پھر اسے روکنے کے لئے ضرورت سے زیادہ طاقت خرچ کرنا پڑتی جو ان حالات میں ممکن نہ تھا۔ اس علاقے میں سب سے بڑی خطرناک بات یہ تھی کہ ہر طرف بارودی سرنگیں بچھی تھیں۔ اس خاص مشکل کی آڑ میں دشمن نے بالآخر پیش قدمی شروع کر دی اور تھوڑی دیر بعد ہرڑ خورد پر قبضہ مستحکم کر لیا۔ یہ بے حد خطرناک صورتِ حال تھی جو پاک فوج کے لئے ایک چیلنج بنتی جا رہی تھی۔
سوار محمد حسین شہید 9 دسمبر 1971 کو گشت پر تھے جب موضع ہرڑ خورد میں ایک گاؤں “ کھیڑا“ پہنچے تو ان کو دشمن کا ایک خفیہ ٹھکانہ دکھائی دے گیا۔ انہوں نے اپنی سٹین گن نکالی اور دشمن پر فائرنگ شروع کر دی۔ دشمن کے کئی فوجی ہلاک کرنے کے بعد وہ پلٹے اپنی رجمنٹ میں آ کر اپنے سیکنڈ ان کمانڈ میجر امان اللہ کو اس واقعے سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ موضع ہرڑ خورد میں بھارتی فوج اپنی مائن فیلڈ کے ساتھ ہم پر حملے کے لئے پر تول رہا ہے۔
میجر صاحب نے فوری طور پر دشمن کا مقابلہ کرنے کے لئے اپنے جوانوں کو مستعد کر دیا۔ ابھی یہ تیاری ہو رہی تھی کہ بھارتی فوج نے ان پر حملہ کر دیا۔ اس نے سب سے پہلے ٹینکوں سے یلغار کی جسے پاک فوج کے بہادر سپاہیوں نے ناکام بنا دیا۔ اس کے بعد بھارتی پیدل فوج کے دستے آگے بڑھے جو موضع ہرڑ خورد کے انتۃائی مقام تک آ پہنچے۔ یہاں ایک ایسی رکاوٹ موجود تھی جس کے باعث دشمن فوج اور پاکستانی دستوں کے لئے ایک دوسرے کو دیکھ لینا ممکن نہ تھا۔ یہ رکاوٹ تھی نالہ چو کا وہ ڈیم یا بند جو خاصا اونچا تھا اور دونوں افواج کے درمیان دیوار کی طرح حائل تھا۔ اس صورت حال میں دونوں طرف کے اینٹی ٹینک ٹروپس بھی مفلوج ہو کر رہ گئے۔
یہ 10 دسمبر 1971 کا تاریخی دن اور سہ پہر کا وقت تھا۔ نازک صارتِ حال اس قدر اعصاب شکن تھی کہ سوار محمد حسین شہید حسبِ عادت اسے برداشت نہ کر سکے۔ انہوں نے بے مثال جرات و شجاعت کا مظاہرہ کرتے ہوئے مورچے سے باہر قدم رکھا اور فائرنگ سے حتی الامکان پرہیز کرتے ہوئے خاموشی سے دشمن کے اگلے مورچوں تک چلے گئے۔ دشمن کی ساری مورچہ بندی اور ٹروپس کا جائزہ لیا اور لوٹ آئے۔
واپس آ کر انہوں نے اپنی رجمنٹ کے ٹینک ٹروپس کی پوزیشن تبدیل کی اور اسے بائیں طرف سے دائیں طرف لے آئے۔ ان کو پوری طرح علم ہو چکا تھا کہ بھارتی فوج کے دستے ہرڑ خورد میں کس مقام پر جمع ہو رہے ہیں تاکہ پاک فوج پر حملہ کرنے کے لئے اپنی قوت کو مجتمع کر سکیں۔
پھر اس سے پہلے کہ بھارتی فوج کوئی عملی قدم اٹھاتی، سوار محمد حسین شہید نے اپنے ٹینک ٹروپس اور آرٹلری کی راہنمائی کرتے ہوئے دشمن پر بھرپور حملہ کر دیا جس کی اسے نہ توقع تھی نہ وہ اس کے لئے تیار تھا کیونکہ وہ تو خود حملہ کرنے کی پوزیشن میں تھا اور چند لمحوں بعد حملہ کرنے والا تھا۔
اچانک اور اس قدر شدید حملے نے دشمن کے اوسان خطا کر دئیے۔ وہ حبط الحواس سا ہو گیا۔ اسے اپنے نقصان کا علم اس وقت ہوا جب قیامت اس کے سر سے آ گر گزر چکی تھی۔ دھماکوں اور فائرنگ کی آواز نے ذرا دم لیا تو اسے پتہ چلا کہ اس کے 18 جدید ترین ٹی پچپن ٹینک نیست و نابود ہو چکے ہیں۔ مارے جانے والے فوجی اور زخمیوں کا شمار اس وقت ممکن نہ تھا اور یہ ساری کاروائی محض چند منٹ پر محیط تھی۔ سوار محمد حسین شہید کی بروقت اور درست راہنمائی کی مرہونِ منت تھی جس کے لئے انہوں نے جان ہتھیلی پر رکھ کر دشمن کی پوزیشن معلوم کی تھی۔
پاکستانی توپ خانہ مسلسل دشمن پر زبردست گولہ باری کر رہا تھا۔ اس گولہ باری سے دشمن کی انفنٹری بٹالین کے پرخچے اڑ گئے۔ جب بھی دشمن کا کوئی ٹنک تباہ ہوتا، کوئی توپ خاموش ہوتی یا اس کے مورچوں کے چھیتھڑے اڑتے، سوار محمد حسین شہید اپنی جگہ سے اٹھ کر جوشِ ایمانی سے لبریز نعرہ تکبیر اور نعرہ حیدری اس طرح بلند کرتے کہ دشمن کے دلوں پر ہیبت چھا جاتی اور صحیح لگتا ہوا نشانہ بھی اس کے کانپ جانے والے ہاتھوں سے غلط ہو جاتا۔
اسی دوران ایک لمحہ ایسا آیا جب اللہ نے اپنے نام لیوا کو طلب کر لیا۔ اسے اس پر اس قدر پیار آیا کہ مزید دوری کا حکم سمیٹ لیا گیا۔
جس کی ہر بوند میں اک صبح نئی
دور جس صبح درخشاں سے اندھیرا ہو گا
رات کٹ جائے گی گُل رنگ سویرا ہو گا
رنگ لائے گا شہیدوں کا لہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کرنل طفیل محمد نے اپنے سامنے کھڑے بائیس تئیس سالہ فوجی جوان کا سیلوٹ وصول کیا اور دبنگ لہجے میں پوچھا:
“کیا بات ہے جوان؟“
“ سر۔۔۔۔۔۔۔۔“ جوان نے مخصوص فوجی لہجے میں کہا۔ “ مجھے پتہ چلا ہے کہ آپ کو اپنے جوانوں کو اسلحہ سپلائی کے لئے رضاکارانہ خدمت کی ضرورت ہے؟“
“ ہاں۔۔۔۔۔ درست ہے۔۔۔۔“ کرنل صاحب نے اسے غور سے دیکھا۔
“سر۔۔۔۔میں اس خدمت کے لئے خود کو پیش کرتا ہوں!“
“تم کس رجمنٹ سے ہو جوان؟“
“لانسر رجمنٹ سے سر!“
“ مگر تم خاص طور پر یہ کام کیوں کرنا چاہتے ہو؟“
“ میں محاذ سے دور اپنی گاڑی میں خاموش نہیں بیٹھ سکتا سر۔۔۔۔ میں اپنے جوانوں کو اسلحہ سپلائی کر کے اپنا فرض ادا کرنا چاہتا ہوں۔“
“ اور کچھ؟“ کرنل صاحب نے متاثر ہو کر پوچھا۔
“ نو سر۔“ جوان نے بلند آواز میں جواب دیا۔
“ پرمیشن گرانٹڈ۔“
“ تھینک یو سر۔“ جوان کے چہرے پر خوشی کی سرخی چھلک اٹھی۔ اس نے ایڑیاں بجا کر سیلوٹ کیا اور متعلقہ شعبے کی طرف بڑھ گیا۔ کچھ دیر بعد وہ اسلحہ کی گاڑی لے کر اپنے فوجیوں کی طرف روانہ ہو گیا جو دشمن کے سامنے سینہ سپر تھے۔ اسلحہ کی سپلائی اس کی ڈیوٹی نہ تھی مگر وہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہنے کا قائل نہ تھا۔
یہ فوجی جوان سوار محمد حسین شہید تھے جو 18 جون 1948 کے دن ڈھوک پیر بخش میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق جنجوعہ راجپوت خاندان سے تھا جو پندرہ سے بارہ میل دور ڈھوک میں عرصہ سے آباد تھے۔ ان کے خاندان کے اکثر لوگوں نے فوج میں ملازمت کی اور اعلٰی عہدوں پر فائز رہے۔ ان کے نانا حوالدار احمد خان نے پہلی جنگ عظیم میں برطانوی حکومت کے دور میں اعلٰی خدمات انجام دینے پر چار میڈل حاصل کئے۔ ان کے ایک خاندانی عزیز شہامد خان نے دوسری جنگِ عظیم میں فوجی خدمات پر وکٹوریہ کراس حاصل کیا تھا۔ ان کے والد روز علی زمیندار تھے اور ڈھوک ہی میں کھیتی باڑی کرتے تھے۔
سوار محمد حسین شہید نے قرآن پاک گھر میں ختم کیا اور پرائمری سکول جھنگ پھیرو میں ابتدائی تعلیم کے لئے داخل کرا دئیے گئے۔ یہاں سے پانچویں جماعت پاس کرنے کے بعد دیوی ہائی سکول سے انہوں نے میٹرک کا امتحان دیا مگر ایک مضمون میں فیل ہو گئے۔
اسی دوران 1965 کی جنگ ستمبر چھڑ گئی۔ گھر والوں نے بہت اصرار کیا کہ سوار محمد حسین تعلیمی سلسلہ جاری رکھیں مگر انہوں نے آگے پڑھنے سے انکار کر دیا۔ 1966 میں جاملی کے مقام پر فوج میں عام بھرتی کا اعلان کیا گیا۔ سوار محمد حسین اپنے ایک دوست دل پذیر کے ساتھ جاملی ریسٹ ہاؤس میں ریکروٹنگ آفیسر کے سامنے بھرتی کی غرض سے پیش ہوئے۔ دونوں کو منتخب کر لیا گیا۔ سوار محمد حسین کی نیلی آنکھوں، کسرتی بدن اور اخلاق سے بھرپور گفتگو نے ریکروٹنگ آفیسر کو بہت متاثر کیا اور ان کی انہی خوبیوں نے انہیں فوجی سپاہی بھرتی ہونے میں مدد بھی دی۔
1968 میں سوار محمد حسین کی شادی ان کی خالہ زاد ارزاں بی بی سے کر دی گئی۔ ارزاں بی بی سے سوار محمد حسین کے دو بچے پیدا ہوئے۔ پہلے بیٹی رخسانہ اور بعد میں بیٹا منور محمد۔ بیٹے کی پیدائش کے وقت وہ سیالکوٹ میں تعینات تھے۔ اس خوشی میں انہوں نے پوری یونٹ کو مٹھائی کھلائی تھی۔
طبعاََ سوار محمد حسین نڈر، بے باک اور بہادر تھے۔ مطالعے کا ذوق تھا اور دینی کُتب بڑے شوق و اہتمام سے پڑھتے تھے۔ دودھ، دہی، لسی کے شوقین تھے اور خوش مزاجی و خوش اخلاقی ان کی گھٹی میں پڑی تھی۔
دینی رحجان نے ان کو بزرگانِ دین کی عقیدت سے لبریز رکھا۔ درویش منش سوار محمد حسین جب کبھی گاؤں آتے تو اپنے مرشد کی خدمت میں ضرور حاضر ہوتے۔ صوم و صلٰوۃ کی پابندی ایک ایسا وصف تھا جو ان کو دوسروں سے ممتاز کرتا تھا۔
1971 کی جنگ شروع ہوئی تو سوار محمد حسین شہید اس وقت شکر گڑھ سیکٹر میں تھے۔ ان کا یونٹ موضع “ باہر“ کے گاؤں میں متعین تھا۔ اس مقام پر سوار محمد حسین نے اپنے فوجی جوانوں کو اسلحہ سپلائی کے فرائض بڑی تندہی، مستعدی اور جوش سے ادا کئے حالانکہ یہ کام ان کی ڈیوٹی میں شامل نہ تھا۔ وہ تو گاڑی میں وائرلیس پر بیٹھے صرف احکامات وصول کرنے کے پابند تھے مگر انہیں خالی بیٹھے رہنے سے اس وقت شدید الجھن ہونے لگی جب وہ دوسرے لوگوں کو سر گرمی سے ادھر ادھر آتے جاتے اور لہو گرم رکھنے کے حامل کاموں میں مصروف دیکھتے، بالآخر وہ رہ نہ سکے اور اپنے کمانڈنگ آفیسر کرنل طفیل محمد کے پاس جا پہنچے اور خصوصی درخواست کر کے اپنی ڈیوٹی رضاکارانہ طور پر اسلحہ سپلائی پر لگوا لی تاکہ وہ عملی طور پر بھی جنگ میں حصہ لے سکیں۔
جب کمانڈنگ آفیسر کے خصوصی احکامات پر انہیں اسلحہ سپلائی کے فرائض تفویض کئے گئے تو ساتھ ہی ایک سٹین گن بھی ان کے ہاتھ میں تھما دی گئی تاکہ دوران ادائیگی فرض وہ اپنی حفاظت اور دشمن کی مرمت کر سکیں۔ یوں اسلحہ سے لیس سوار محمد حسین نے جنگ 1971 میں عملی جہاد کے میدان میں قدم رکھ دیا۔
کمانڈنگ آفیسر کرنل طفیل محمد کو اعلٰی حکام نے اس روز یہ حکم دیا کہ نالہ ڈیک اور بیئیں کے درمیان 14 میل کے ایریا میں اپنی پوزیشنیں مستحکم کر لیں۔ فوجی نقطہ نظر سے یہ کام بے حد اہم اور عملی طور پر بے حد مشکل تھا کیونکہ دشمن کی شدید گولہ باری میں ہر قدم پر خطرہ ہی خطرہ تھا مگر۔۔۔۔۔۔۔ پاک فوج کے جوان کب کسی بھی مشکل کو خاطر میں لاتے ہیں۔ انہوں نے اس ناممکن کو بھی ممکن کر دکھایا اور فوجی حکام کے عندیے کی تکمیل شروع ہو گئی۔
جنگ کے دوران حربی مصلحتوں کا تقاضہ یہ تھا کہ دشمن کو اس علاقے سے دور روک کر رکھا جائے۔ چنانچہ تعداد میں کہیں زیادہ اور جدید اسلحہ سے لیس بھارتی فوج کو 5 سے 9 دسمبر 1971 تک اس علاقے کے پار اس طرح روکے رکھا کہ وہ ایک قدم آگے نہ بڑھ سکےاس دوران دشمن نے بارہا حملے کئے۔ مسلسل دباؤ بڑھاتا رہا مگر تابڑ توڑ حملوں کے باوجود اسے ہر بار منہ کی کھانا پڑی۔ پسپائی جیسے اس کے نصیبوں میں لکھی تھی جو ہر بار اسے مزید پیچھے دھکیل دیتی۔
سوار محمد حسین اس عرصے میں بڑی سرگرمی کے ساتھ دشمن کے ٹھکانوں کا پتہ لگانے میں مصروف رہے۔ ان کے جوش و جذبہ کا عالم یہ تھا کہ ایک دن تن تنہا ایک مورچے میں بیٹھ کر دشمن پر دھواں دھار فائرنگ شروع کر دی۔ ان کی جان اس سارے عرصے میں مسلسل خطرے میں تھی مگر جب وہ اپنے مورچے سے نکل کر اپنے یونٹ میں واپس آئے تو دشمن کے درجن بھر فوجیوں کو ہلاک کر چکے تھے۔
واپس آ کر انہوں نے اپنے کمانڈنگ آفیسر کو بتایا کہ وہ دشمن کے درجن بھر سے زائد سپاہیوں کو جہنم رسید کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی پوزیشن کا پورا نقشہ بھی بنا لائے ہیں تو کرنل طفیل محمد نے انہیں شاباش دی۔ پھر ان کی بتائی ہوئی پوزیشن کے مطابق دشمن کو نشانے پر رکھا گیا تو اسے ایسا جانی و مالی نقصان پہنچا جس میں ٹینکوں کی تباہی، بارود کی بربادی اور دوسرے اسلحے کا زیاں شامل تھا۔ اس معرکے میں سوار محمد حسین نے دشمن کے 16 شرمن اور سنچورین ٹینک خود تباہ کئے جو ایک بہت بڑا کارنامہ تھا۔
اسی روز پاک فوج نے کجگل کے مورچے پر قبضہ کر لیا۔ دشمن سر توڑ کوشش کے باوجود یہ مورچہ واپس نہ لے سکا۔ اس دوران ہرڑ کلاں اور ہرڑ خورد کے بالمقابل 2500 گز کے وسیع و عریض علاقے میں پاکستانی فوج کے صرف تین سکواڈرن تھے جو اپنے سے کئی گنا بڑی بھارتی فوج پر مسلسل ضرب لگا رہے تھے۔ اسے نقصان پہنچا رہے تھے۔ اس کی آگے بڑھنے اور دوبارہ قبضہ حاصل کرنے کی ہر کوشش کو ناکام بنا رہے تھے۔ ان میں سے درمیانی سکواڈرن میں سوار محمد حسین بھی شامل تھے اور وہ اپنی گن سے دشمن کو تاک تاک کر نشانہ بنا رہے تھے۔
صورتِ حال کا تقاضہ اب یہ تھا کہ پاک فوج نالہ چو اور اس ے ملے ہوئے دیگر دو نالوں پر مورچہ بندی کر کے اپنی پوزیشن مستحکم کرے ورنہ دشمن کا بڑھتا ہوا دباؤ کسی بھی وقت ناگہانی صورتحال کا جنم دے سکتا تھا۔ اس کی پیش قدمی اگر شروع ہو جاتی تو پھر اسے روکنے کے لئے ضرورت سے زیادہ طاقت خرچ کرنا پڑتی جو ان حالات میں ممکن نہ تھا۔ اس علاقے میں سب سے بڑی خطرناک بات یہ تھی کہ ہر طرف بارودی سرنگیں بچھی تھیں۔ اس خاص مشکل کی آڑ میں دشمن نے بالآخر پیش قدمی شروع کر دی اور تھوڑی دیر بعد ہرڑ خورد پر قبضہ مستحکم کر لیا۔ یہ بے حد خطرناک صورتِ حال تھی جو پاک فوج کے لئے ایک چیلنج بنتی جا رہی تھی۔
سوار محمد حسین شہید 9 دسمبر 1971 کو گشت پر تھے جب موضع ہرڑ خورد میں ایک گاؤں “ کھیڑا“ پہنچے تو ان کو دشمن کا ایک خفیہ ٹھکانہ دکھائی دے گیا۔ انہوں نے اپنی سٹین گن نکالی اور دشمن پر فائرنگ شروع کر دی۔ دشمن کے کئی فوجی ہلاک کرنے کے بعد وہ پلٹے اپنی رجمنٹ میں آ کر اپنے سیکنڈ ان کمانڈ میجر امان اللہ کو اس واقعے سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ موضع ہرڑ خورد میں بھارتی فوج اپنی مائن فیلڈ کے ساتھ ہم پر حملے کے لئے پر تول رہا ہے۔
میجر صاحب نے فوری طور پر دشمن کا مقابلہ کرنے کے لئے اپنے جوانوں کو مستعد کر دیا۔ ابھی یہ تیاری ہو رہی تھی کہ بھارتی فوج نے ان پر حملہ کر دیا۔ اس نے سب سے پہلے ٹینکوں سے یلغار کی جسے پاک فوج کے بہادر سپاہیوں نے ناکام بنا دیا۔ اس کے بعد بھارتی پیدل فوج کے دستے آگے بڑھے جو موضع ہرڑ خورد کے انتۃائی مقام تک آ پہنچے۔ یہاں ایک ایسی رکاوٹ موجود تھی جس کے باعث دشمن فوج اور پاکستانی دستوں کے لئے ایک دوسرے کو دیکھ لینا ممکن نہ تھا۔ یہ رکاوٹ تھی نالہ چو کا وہ ڈیم یا بند جو خاصا اونچا تھا اور دونوں افواج کے درمیان دیوار کی طرح حائل تھا۔ اس صورت حال میں دونوں طرف کے اینٹی ٹینک ٹروپس بھی مفلوج ہو کر رہ گئے۔
یہ 10 دسمبر 1971 کا تاریخی دن اور سہ پہر کا وقت تھا۔ نازک صارتِ حال اس قدر اعصاب شکن تھی کہ سوار محمد حسین شہید حسبِ عادت اسے برداشت نہ کر سکے۔ انہوں نے بے مثال جرات و شجاعت کا مظاہرہ کرتے ہوئے مورچے سے باہر قدم رکھا اور فائرنگ سے حتی الامکان پرہیز کرتے ہوئے خاموشی سے دشمن کے اگلے مورچوں تک چلے گئے۔ دشمن کی ساری مورچہ بندی اور ٹروپس کا جائزہ لیا اور لوٹ آئے۔
واپس آ کر انہوں نے اپنی رجمنٹ کے ٹینک ٹروپس کی پوزیشن تبدیل کی اور اسے بائیں طرف سے دائیں طرف لے آئے۔ ان کو پوری طرح علم ہو چکا تھا کہ بھارتی فوج کے دستے ہرڑ خورد میں کس مقام پر جمع ہو رہے ہیں تاکہ پاک فوج پر حملہ کرنے کے لئے اپنی قوت کو مجتمع کر سکیں۔
پھر اس سے پہلے کہ بھارتی فوج کوئی عملی قدم اٹھاتی، سوار محمد حسین شہید نے اپنے ٹینک ٹروپس اور آرٹلری کی راہنمائی کرتے ہوئے دشمن پر بھرپور حملہ کر دیا جس کی اسے نہ توقع تھی نہ وہ اس کے لئے تیار تھا کیونکہ وہ تو خود حملہ کرنے کی پوزیشن میں تھا اور چند لمحوں بعد حملہ کرنے والا تھا۔
اچانک اور اس قدر شدید حملے نے دشمن کے اوسان خطا کر دئیے۔ وہ حبط الحواس سا ہو گیا۔ اسے اپنے نقصان کا علم اس وقت ہوا جب قیامت اس کے سر سے آ گر گزر چکی تھی۔ دھماکوں اور فائرنگ کی آواز نے ذرا دم لیا تو اسے پتہ چلا کہ اس کے 18 جدید ترین ٹی پچپن ٹینک نیست و نابود ہو چکے ہیں۔ مارے جانے والے فوجی اور زخمیوں کا شمار اس وقت ممکن نہ تھا اور یہ ساری کاروائی محض چند منٹ پر محیط تھی۔ سوار محمد حسین شہید کی بروقت اور درست راہنمائی کی مرہونِ منت تھی جس کے لئے انہوں نے جان ہتھیلی پر رکھ کر دشمن کی پوزیشن معلوم کی تھی۔
پاکستانی توپ خانہ مسلسل دشمن پر زبردست گولہ باری کر رہا تھا۔ اس گولہ باری سے دشمن کی انفنٹری بٹالین کے پرخچے اڑ گئے۔ جب بھی دشمن کا کوئی ٹنک تباہ ہوتا، کوئی توپ خاموش ہوتی یا اس کے مورچوں کے چھیتھڑے اڑتے، سوار محمد حسین شہید اپنی جگہ سے اٹھ کر جوشِ ایمانی سے لبریز نعرہ تکبیر اور نعرہ حیدری اس طرح بلند کرتے کہ دشمن کے دلوں پر ہیبت چھا جاتی اور صحیح لگتا ہوا نشانہ بھی اس کے کانپ جانے والے ہاتھوں سے غلط ہو جاتا۔
اسی دوران ایک لمحہ ایسا آیا جب اللہ نے اپنے نام لیوا کو طلب کر لیا۔ اسے اس پر اس قدر پیار آیا کہ مزید دوری کا حکم سمیٹ لیا گیا۔