سیما
05-28-2011, 05:51 AM
http://cns.miis.edu/archive/country_india/images/cha1_lrg.jpg
مظفر اعجاز
آج پاکستانی قوم کو یوم تکبیر منانا چاہیے .... اگرنہیں منا رہی تو منانا چاہیے اورمنا رہی ہے تو پھرسوال ہے کہ کیوں منا رہی ہے؟ ہے ناں عجیب تضاد۔ ایک طرف ہم کہہ رہے ہیں کہ یوم تکبیرمنانا چاہیے اور دوسری طرف کہہ رہے ہیں کہ کیوں منانا چاہیے۔ ہاں بات ایسی ہی ہے کہ 1998ءمیں ایٹمی دھماکوں کے بعد سے اب تک گزشتہ 13 برسوں میں کبھی یہ خیال نہیں آیا کہ پاکستانی قوم کو ایٹمی قوت ہونے پرفخر کرنا چاہیے یا نہیں کرنا چاہیے لیکن صرف 2011ءکے دوران ایسے واقعات مسلسل پیش آئے ہیں کہ یہ سوال خود بخود پیدا ہورہا ہے کہ ایٹمی قوت ہونے پرفخرکیاجائے یا نہیں اورکتنا کیاجائے ۔1998ءمیں جب ایٹمی دھماکے ہوئے تو یہی کہاگیا کہ اب کوئی پاکستان کی طرف میلی آنکھوں سے نہیں دیکھ سکتا اورکئی برس تک تو ایسا ہی ہوا لیکن میلی آنکھوں میں میلی نیت اور میلے ہاتھوں والے کہاں باز آنے والے تھے چنانچہ9/11 سے لے کر آج تک کے واقعات یہ بتانے کے لیے کافی ہیں کہ مسلسل ایک جال ہے جو پاکستان کے خلاف بُناجارہا ہے اور ایٹمی دھماکوں کے وقت اسلامی بم کی اصطلاح گھڑی گئی اور پاکستان کے ایٹم بم کو اسلامی بم کہاگیا اور یہ کہہ کہہ کر دنیا کو ڈرایا گیا کہ کوئی اسلامی بم ہے جو غیرمسلم دنیا کے خلاف استعمال ہونے والا ہے۔ پورے پروپیگنڈے میں کہیں امریکا یا فرانس کے بم کو عیسائی بم چینی اور روسی بم کو کمیونسٹ بم اور اسرائیلی بم کو یہودی بم نہیں کہاگیاصرف پاکستان کے بم کو اسلامک بم کیاگیا ظاہری بات ہے جس روز یہ اصطلاح پیش کی گئی اسی روز سے پاکستان کے خلاف سازشیں شروع ہوگئیں سازشیں تو خیر ہونی ہی چاہیے تھیں لیکن افسوس کا مقام یہ ہے کہ دنیا کی ساتویں ایٹمی قوت ہونے کے باوجود عالم اسلام کی پہلی ایٹمی قوت کا اعزاز رکھنے کے باوجودہماری قیادت جرات کا اظہارنہیں کرسکی۔ ایک دفعہ پستی کا رخ کیا تو گرتے ہی چلے گئے میاں نوازشریف نے ایٹمی دھماکے توکروادیے لیکن اس کے بعد پڑنے والا دباو برداشت نہیں کرسکے اور ان کی چھٹی کرکے جنرل پرویزکو صرف ایک سال کے بعد اقتدارمیں لایا اسی لیے گیا تھا کہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو رول بیک کرنے کے جواب کو پورا کیاجاسکے۔ اورجنرل پرویزنے اس کام میں ان کی بڑی معاونت کی۔ ابتدا میں پاکستان پاکستان کرنے والے جنرل پرویزامریکا کے اس قدردباو میں آگئے کہ ہروقت امریکا امریکا کرنے لگے۔ امریکا کی نہیں مانی تویہ ہوجائے گا۔ وہ ہو جائے گا وغیرہ وغیرہ یہاں تک کہ جنرل پرویزنے ڈاکٹرقدیرکو قومی ہیرو سے امریکی مجرم بنادیا وہ تو عوامی دباو تھا جس نے ڈاکٹرقدیرکو امریکا کے حوالے کرنے سے روک دیا ورنہ وہ تو انہیں امریکی مجرم قرار دے ہی چکے تھے اور اب تو یہ انکشاف بھی ہوچکا کہ صدر آصف زرداری بھی کہہ چکے ہیں کہ میرے اختیارمیں ہوتا تو ڈاکٹرقدیر کو امریکا کے حوالے کردیتا۔ جنرل پرویز کے دورمیں ایٹمی ہتھیار تھے اورایٹمی قوت ہونے کے باوجود پاکستانی قیادت کے خوفزدگی کے عالم میں بیان دیے۔ اورصدرپرویز مشرف کی جانب سے یہ کہنے کہ اگرامریکا کی نہیں مانتے تو وہ ہمارا تورا بورا بنادیتا ‘لوگوں نے مذاقاً کہنا شروع کردیا تھا کہ ایک آدمی نے ایک سفرکے اختتام پر گھروالوں کو بتایاکہ راستے میں مجھے ڈاکووں نے گھیرلیا تھا انہوں نے میرے پرس سے نقدی لوٹ لی۔ میری گھڑی اتروالی‘ میرا موبائل لے لیا۔ بلکہ بے عزتی کرنے کے لیے دو تین تھپڑبھی مارے اورگالیاں بھی دیں اور دھمکیاں بھی دیں۔ میں نے اس خطرے کے پیش نظر ان کی ساری باتیں مان لیں کہ کہیں وہ مجھے مار ہی نہ دیں۔ اس پر لوگوں نے یاد دلایا کہ تمہارے پاس تو پستول بھی ہوتاہے ‘کہنے لگا ہاں۔ بڑی مشکل سے یہ پستول بچا کر لایا ہوں اس کی حفاظت بھی توکرنا تھی۔ اوریہ مذاق آج حقیقت بنتا نظرآرہا ہے بار بار کہا جارہا ہے کہ ہم ایٹمی قوت ہیں بلکہ ذمہ دار ایٹمی قوت ہیں اور ہمارے ایٹمی اثاثے محفوظ ہیں۔ کوئی ہماری طرف میلی آنکھوں سے نہیں دیکھ سکتا۔ لیکن بھائی اب تو کوئلے کی دلالی میں سب کے ہی ہاتھ کالے ہوچکے ہیں میلی آنکھوں کی کیا بات ہے‘ سب کے سب رنگے ہوئے ہیں کس پر اعتبارکیا جائے۔ ہوسکتا ہے اس پستول کی طرح ایٹمی پروگرام اور ہتھیارمحفوظ ہوں لیکن کم ازکم ایٹمی ہتھیار اور ایٹمی قوت ہونے کے سبب ہم ڈاکٹرعافیہ کو امریکی قید میں جانے سے نہیں روک سکے۔ ایٹمی قوت ہونے کے باوجود ہم ریمنڈڈیوس کو نہیں روک سکے اور سزانہیں دے سکے اور تو اور امریکیوں کو ایبٹ آباد آپریشن سے نہیں روک سکے اوریہ جو روزانہ ملک کے مختلف علاقوں میں ڈرون حملے ہورہے ہیں جن کو روکنے اور امریکی ڈرون طیارے گرانے کی قرارداد اورپارلیمنٹ نے منظور کر رکھی ہے ان کو نہیں روک سکے تو پھر ایٹمی ہتھیارکس کام کے۔ امریکی جب چاہتے ہیں کھلے اور چھپے پاکستان میں کارروائیاں کرتے ہیں۔ ایک بارپھراوباما نے امریکا میں کھل کر کہا ہے کہ ضرورت پڑی توپاکستان میں ایبٹ آباد طرز کے مزید آپریشن کیے جاسکتے ہیں۔ ایبٹ آباد آپریشن میں جو امریکی ہیلی کاپٹر گرا تھا یا گرایا گیا تھا اس کی دم امریکا کے ایک مطالبہ پر ان کے حوالے کردی گئی۔ ان حالات میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستانی قوم کو یوم تکبیر مناناچاہیے ہمارے حکمرانوں نے ایٹمی اسلحہ اور ایٹمی قوت کو محض شوکیس کی زینت بناڈالا ہے۔ ایسے میں ایک دل جلے نے موبائل پر یہ پیغام بھیجا کہ ایٹم بم یا اسکریپ کا ڈھیر....ایک جرات مند قیادت کے بغیر یہ اسکریپ سے بھی گیاگزراہے اگرہمارے شہری اورسرحدیں محفوظ نہیں ڈاکٹر غائب ‘امریکی قیدی ریمنڈ ڈیوس قتل کرکے آزاد ہے روز پاکستان میں امریکی آپریشن ہورہے ہیں تو اس سے بہتر ہے کہ یہ ایٹم بم ٹین ڈبے والوں کو فروخت کردیے جائیں۔ گویا جب تک قیادت دیر نہیں ہوگی ایٹمی قوت کسی کام نہیں آئے گی۔ لیکن پھربھی بڑا کارنامہ کیا تھا پاکستانی قوم نے 28 مئی کو ایک اعزازحاصل کیا تھا اس لیے پاکستانی قوم کو یوم تکبیرمبارک۔
مظفر اعجاز
آج پاکستانی قوم کو یوم تکبیر منانا چاہیے .... اگرنہیں منا رہی تو منانا چاہیے اورمنا رہی ہے تو پھرسوال ہے کہ کیوں منا رہی ہے؟ ہے ناں عجیب تضاد۔ ایک طرف ہم کہہ رہے ہیں کہ یوم تکبیرمنانا چاہیے اور دوسری طرف کہہ رہے ہیں کہ کیوں منانا چاہیے۔ ہاں بات ایسی ہی ہے کہ 1998ءمیں ایٹمی دھماکوں کے بعد سے اب تک گزشتہ 13 برسوں میں کبھی یہ خیال نہیں آیا کہ پاکستانی قوم کو ایٹمی قوت ہونے پرفخر کرنا چاہیے یا نہیں کرنا چاہیے لیکن صرف 2011ءکے دوران ایسے واقعات مسلسل پیش آئے ہیں کہ یہ سوال خود بخود پیدا ہورہا ہے کہ ایٹمی قوت ہونے پرفخرکیاجائے یا نہیں اورکتنا کیاجائے ۔1998ءمیں جب ایٹمی دھماکے ہوئے تو یہی کہاگیا کہ اب کوئی پاکستان کی طرف میلی آنکھوں سے نہیں دیکھ سکتا اورکئی برس تک تو ایسا ہی ہوا لیکن میلی آنکھوں میں میلی نیت اور میلے ہاتھوں والے کہاں باز آنے والے تھے چنانچہ9/11 سے لے کر آج تک کے واقعات یہ بتانے کے لیے کافی ہیں کہ مسلسل ایک جال ہے جو پاکستان کے خلاف بُناجارہا ہے اور ایٹمی دھماکوں کے وقت اسلامی بم کی اصطلاح گھڑی گئی اور پاکستان کے ایٹم بم کو اسلامی بم کہاگیا اور یہ کہہ کہہ کر دنیا کو ڈرایا گیا کہ کوئی اسلامی بم ہے جو غیرمسلم دنیا کے خلاف استعمال ہونے والا ہے۔ پورے پروپیگنڈے میں کہیں امریکا یا فرانس کے بم کو عیسائی بم چینی اور روسی بم کو کمیونسٹ بم اور اسرائیلی بم کو یہودی بم نہیں کہاگیاصرف پاکستان کے بم کو اسلامک بم کیاگیا ظاہری بات ہے جس روز یہ اصطلاح پیش کی گئی اسی روز سے پاکستان کے خلاف سازشیں شروع ہوگئیں سازشیں تو خیر ہونی ہی چاہیے تھیں لیکن افسوس کا مقام یہ ہے کہ دنیا کی ساتویں ایٹمی قوت ہونے کے باوجود عالم اسلام کی پہلی ایٹمی قوت کا اعزاز رکھنے کے باوجودہماری قیادت جرات کا اظہارنہیں کرسکی۔ ایک دفعہ پستی کا رخ کیا تو گرتے ہی چلے گئے میاں نوازشریف نے ایٹمی دھماکے توکروادیے لیکن اس کے بعد پڑنے والا دباو برداشت نہیں کرسکے اور ان کی چھٹی کرکے جنرل پرویزکو صرف ایک سال کے بعد اقتدارمیں لایا اسی لیے گیا تھا کہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو رول بیک کرنے کے جواب کو پورا کیاجاسکے۔ اورجنرل پرویزنے اس کام میں ان کی بڑی معاونت کی۔ ابتدا میں پاکستان پاکستان کرنے والے جنرل پرویزامریکا کے اس قدردباو میں آگئے کہ ہروقت امریکا امریکا کرنے لگے۔ امریکا کی نہیں مانی تویہ ہوجائے گا۔ وہ ہو جائے گا وغیرہ وغیرہ یہاں تک کہ جنرل پرویزنے ڈاکٹرقدیرکو قومی ہیرو سے امریکی مجرم بنادیا وہ تو عوامی دباو تھا جس نے ڈاکٹرقدیرکو امریکا کے حوالے کرنے سے روک دیا ورنہ وہ تو انہیں امریکی مجرم قرار دے ہی چکے تھے اور اب تو یہ انکشاف بھی ہوچکا کہ صدر آصف زرداری بھی کہہ چکے ہیں کہ میرے اختیارمیں ہوتا تو ڈاکٹرقدیر کو امریکا کے حوالے کردیتا۔ جنرل پرویز کے دورمیں ایٹمی ہتھیار تھے اورایٹمی قوت ہونے کے باوجود پاکستانی قیادت کے خوفزدگی کے عالم میں بیان دیے۔ اورصدرپرویز مشرف کی جانب سے یہ کہنے کہ اگرامریکا کی نہیں مانتے تو وہ ہمارا تورا بورا بنادیتا ‘لوگوں نے مذاقاً کہنا شروع کردیا تھا کہ ایک آدمی نے ایک سفرکے اختتام پر گھروالوں کو بتایاکہ راستے میں مجھے ڈاکووں نے گھیرلیا تھا انہوں نے میرے پرس سے نقدی لوٹ لی۔ میری گھڑی اتروالی‘ میرا موبائل لے لیا۔ بلکہ بے عزتی کرنے کے لیے دو تین تھپڑبھی مارے اورگالیاں بھی دیں اور دھمکیاں بھی دیں۔ میں نے اس خطرے کے پیش نظر ان کی ساری باتیں مان لیں کہ کہیں وہ مجھے مار ہی نہ دیں۔ اس پر لوگوں نے یاد دلایا کہ تمہارے پاس تو پستول بھی ہوتاہے ‘کہنے لگا ہاں۔ بڑی مشکل سے یہ پستول بچا کر لایا ہوں اس کی حفاظت بھی توکرنا تھی۔ اوریہ مذاق آج حقیقت بنتا نظرآرہا ہے بار بار کہا جارہا ہے کہ ہم ایٹمی قوت ہیں بلکہ ذمہ دار ایٹمی قوت ہیں اور ہمارے ایٹمی اثاثے محفوظ ہیں۔ کوئی ہماری طرف میلی آنکھوں سے نہیں دیکھ سکتا۔ لیکن بھائی اب تو کوئلے کی دلالی میں سب کے ہی ہاتھ کالے ہوچکے ہیں میلی آنکھوں کی کیا بات ہے‘ سب کے سب رنگے ہوئے ہیں کس پر اعتبارکیا جائے۔ ہوسکتا ہے اس پستول کی طرح ایٹمی پروگرام اور ہتھیارمحفوظ ہوں لیکن کم ازکم ایٹمی ہتھیار اور ایٹمی قوت ہونے کے سبب ہم ڈاکٹرعافیہ کو امریکی قید میں جانے سے نہیں روک سکے۔ ایٹمی قوت ہونے کے باوجود ہم ریمنڈڈیوس کو نہیں روک سکے اور سزانہیں دے سکے اور تو اور امریکیوں کو ایبٹ آباد آپریشن سے نہیں روک سکے اوریہ جو روزانہ ملک کے مختلف علاقوں میں ڈرون حملے ہورہے ہیں جن کو روکنے اور امریکی ڈرون طیارے گرانے کی قرارداد اورپارلیمنٹ نے منظور کر رکھی ہے ان کو نہیں روک سکے تو پھر ایٹمی ہتھیارکس کام کے۔ امریکی جب چاہتے ہیں کھلے اور چھپے پاکستان میں کارروائیاں کرتے ہیں۔ ایک بارپھراوباما نے امریکا میں کھل کر کہا ہے کہ ضرورت پڑی توپاکستان میں ایبٹ آباد طرز کے مزید آپریشن کیے جاسکتے ہیں۔ ایبٹ آباد آپریشن میں جو امریکی ہیلی کاپٹر گرا تھا یا گرایا گیا تھا اس کی دم امریکا کے ایک مطالبہ پر ان کے حوالے کردی گئی۔ ان حالات میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستانی قوم کو یوم تکبیر مناناچاہیے ہمارے حکمرانوں نے ایٹمی اسلحہ اور ایٹمی قوت کو محض شوکیس کی زینت بناڈالا ہے۔ ایسے میں ایک دل جلے نے موبائل پر یہ پیغام بھیجا کہ ایٹم بم یا اسکریپ کا ڈھیر....ایک جرات مند قیادت کے بغیر یہ اسکریپ سے بھی گیاگزراہے اگرہمارے شہری اورسرحدیں محفوظ نہیں ڈاکٹر غائب ‘امریکی قیدی ریمنڈ ڈیوس قتل کرکے آزاد ہے روز پاکستان میں امریکی آپریشن ہورہے ہیں تو اس سے بہتر ہے کہ یہ ایٹم بم ٹین ڈبے والوں کو فروخت کردیے جائیں۔ گویا جب تک قیادت دیر نہیں ہوگی ایٹمی قوت کسی کام نہیں آئے گی۔ لیکن پھربھی بڑا کارنامہ کیا تھا پاکستانی قوم نے 28 مئی کو ایک اعزازحاصل کیا تھا اس لیے پاکستانی قوم کو یوم تکبیرمبارک۔