بےباک
03-12-2012, 07:04 PM
شہادت و ہلاکت...سحر ہونے تک…ڈاکٹر عبدالقدیرخان
آجکل ہمیں یہ دیکھ کر اور پڑھ کر سخت اَفسوس ہوتا ہے کہ چند نہایت ہی متبّرک اصطلاحات کو نہ صرف غلط طور پر استعمال کیا جاتا ہے بلکہ ان کو کلام الٰہی کے برخلاف،( جس میں نہایت صاف اور غیر مبہم طور پر ان کی تشریح کی گئی ہے) استعمال کیا جارہا ہے۔ ہماری تاریخ ایسی لاتعداد مشہور شخصیات سے بھری پڑی ہیں جو ایسے مقدّس اَلقاب کے مستحق تھے اور ان کو ہی یہ القاب دیے گئے تھے۔
ایک مخصوص مثال ہمارے معاشرہ میں اسکی یہ ہے کہ مقدّس قرآنی زبان کو غلط طریقہ سے استعمال کیا جاتا ہے، حقیقت و سچائی کو چھپا کر اس کے بدلہ اپنے مطلب و مقصد کے معنی و القاب توڑ مروڑ کر پیش کئے جاتے ہیں۔ اسکی تازہ مثال لفظ شہید کا استعمال سیاسی مقاصد کے لئے ہے ۔
کلام مجید میں پہلی سورة فاتحہ میں (آیت 5تا7 ) اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، ”اے پروردگار ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھی سے مدد مانگتے ہیں، ہم کو سیدھے راستہ پر چلا، ان لوگوں کے راستے پر جن پر تو اپنا فضل و کرم کرتا رہا“۔ آپ کو یہ علم ہونا چاہئے کہ جن لوگوں پراللہ تعالیٰ اپنا فضل و کرم کرتا ہے وہ اعلیٰ رتبہ رکھتے ہیں۔ آپ ان میں پیغمبروں، صدیقین، اور شہداء کو شامل کرسکتے ہیں۔ اس مقدّس القاب یا مرتبہ کواللہ تعالیٰ نے نہایت صاف اور غیرمبہم الفاظ میں بیان کیا ہے اور رسول اللہ نے نہایت سادہ اور صاف الفاظ میں اس کی تشریح کردی ہے۔ اسلام کے لاتعداد بہادر اور جرأت مند پیروکاروں نے اپنے اعمال و کردار سے اس کی عملی مثالیں چھوڑی ہیں اور آج بھی جب کافر یا مشرک ہماری سرحدوں کی خلاف ورزی کرتے ہیں توافواج پاکستان کے جانباز اور دلیر جوانان و افسران حقیقی معنوں میں اپنی جان دے کر شہادت کا اعلیٰ رتبہ حاصل کرتے ہیں۔ اس طرح شہید کی تعریف میں کسی قسم کا ابہام نہیں ہے اور ہم بہ آسانی شہادت اور عام ہلاکت میں تفریق یا امتیاز کرسکتے ہیں۔
ہمارے پیارے رسول صلعم نے متعدد احادیث میں فرما یا ہے کہ تمام کاموں کی بنیاد ان کی نیت پر منحصر ہوتی ہے۔ آپ نے شہادت اور شہید کی صفات بھی بیان فرمائی ہیں۔ ان میں پیغمبراسلام کے مشن کی تکمیل کی جدّوجہد و خواہش، اللہ تعالیٰ کے احکامات کی تشہیر اور اس میں کسی قسم کا ذاتی مقصد یا شہرت حاصل کرنا نہ ہو اور نہ ہی مالی فائدہ یا اقتدار کی ہوس و جستجو شامل ہو۔
اگر ان مقاصد کے حصول میں کوئی مسلمان اپنی جان قربان کردے تو اس کو شہادت کا مقدّس رتبہ ملتا ہے۔ اگر اس سے انحراف کیا گیا تو یہ اللہ اور اس کے پیغمبر کے احکامات کی کھلی خلاف ورزی ہے اور صرف سیاسی مقاصد کا حصول ہے۔
دیکھئے کلام مجید میں لاتعدادجگہ شہید کو شہادت یا گواہ کے معنوں میں استعمال ہوا ہے مثلاً سورہ بقرہ (آیت 143,133 )، سورہ نور(آیت6 )، سورہ ق (آیت 21 )، سورہ آلِ عمران(آیت 98 )، سورہ المائدہ ا(آیت 114 )، سورہ القصص (آیت 75 )۔ عربی لغات میں لفظ شہید پر تفصیلی بحث موجود ہے اور شہید اللہ تعالیٰ کے اسما ئے گرامی میں سے ایک اِسم ہے۔
شہید کی جہاں دوسری صفات بیان کی گئی ہیں وہاں ایک صفت یہ بھی ہے کہ (اللہ کی راہ میں ہلاک ہونے یا قتل ہونے والے) کو اس لئے شہید کہتے ہیں کہ جان فروشی کے صلے میں وہ یہ عزّت و شرف پائے گا کہ قیامت کے دن رسول اللہ صلعم کے ساتھ مل کر وہ بھی گزشتہ اُمّتوں کے بارے میں گواہی دے گا۔ حقیقت میں شہید کا اطلاق تو اس شخص پر ہوتا ہے جو اللہ کی راہ میں دشمنان اسلام سے لڑتا ہوا جان قربان کردے۔ لوگوں نے اس کے معانی میں وسعت پیدا کرکے اس زمرہ میں ان لوگوں کو بھی شامل کرلیا جو کسی اور وجہ سے مرجائیں یا ڈوب کر مرجائیں۔ عقل اس قسم کے لوگوں کو شہید کا مقدّس منصب دینا قبول نہیں کرتی ہے۔
قرآن مجید میں لفظ شہید بمعنی مقتول فی سبیل اللہ صرف ایک ہی مرتبہ بصورت جمع شہداء استعمال ہوا ہے۔ سورة النِسا، آیت 69 ، ”جس کسی نے اللہ اور رسول کی اطاعت کی تو بلاشبہ وہ ان لوگون کا ساتھی ہو ا جن پر اللہ تعالیٰ نے رحم کیا یعنی انعام کیایعنی نبیوں، صدیقوں، شہیدوں اور نیکوکاروں کا۔ احادیث میں لفظ مقتول فی سبیل اللہ بکثرت آیا ہے مگر کلام مجید میں شہید (یعنی مقتول فی سبیل اللہ) ایک وضاحتی طریقہ سے بیان کیا گیا ہے مثلاً سورہ اٰلِ عمران آیت 157 میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ، ”(دیکھو) اگر تم اللہ کی راہ میں قتل ہوگئے یا اپنی موت مرگئے تو اللہ کی طرف سے جو رحمت اور بخشش تمھارے حصّہ میں آئے گی وہ یقینا ان تمام چیزوں سے بہتر ہے جس کی پونجی لوگ جمع کیا کرتے تھے“۔ اور آیت نمبر 69 1 میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ”اے پیغمبر جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل ہوتے ہیں ان کی نسبت ایسا خیال نہ کرنا کہ وہ مرگئے ہیں، نہیں ، وہ زندہ ہیں اور وہ اپنے پروردگار کے حضور روزی پارہے ہیں“۔ اور سورہ محمد، آیت 4 تا6 تک میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ ”جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے گئے ہیں اللہ ان کے اعمال کو ضائع نہیں کریگا، ان کو راہ دکھائے گا اور ان کے احوال کو درست کریگا اور اُنھیں بہشت میں داخل کریگا جس سے ان کو روشناس کررکھا ہے“۔
اَحادیث کی کتابوں میں شہید کی اصطلاح خصوصی طور پر اس شخص کیلئے آئی ہے جو کفّار کے ساتھ جنگ کرکے اپنی جان دیدیتا ہے اور اس طرح اپنے ایمان پر سچائی کی مہر لگا دیتا ہے۔ احادیث میں ذکر ہے کہ ایسا شہید قبر میں منکر نکیر فرشتوں کے امتحان سے محفوظ رہتا ہے اور سے نہ ہی برزخ یعنی گناہوں سے پاک کرنے والی آگ سے گزرنا پڑے گا۔ شہدا جنت کے بلند ترین درجہ تک پہنچ جاتے ہیں جو عرش الٰہی سے قریب ترین ہے۔
حدیث میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ شہید کے زخم جو اسکو جہاد میں لگتے ہیں روز جزا تازہ ہوجائینگے اور چمکیں گے اور ان میں سے مشک کی خوشبو آئے گی۔جنت کے رہنے والوں میں سے کوئی بھی زمین پر واپس نہیں آسکے گا لیکن ان مخصوص مراعات کی وجہ سے جو اسے شہادت کی وجہ سے حاصل ہونگی وہ خواہش کرے گا کہ دنیا میں آکر دس مرتبہ پھر شہید ہو۔ شہدا شہادت کے ساتھ ہی تمام گناہوں سے سزا سے بری کردیئے جاتے ہیں۔ بعض روایات میں تو وہ ہمیں دوسرے آدمیوں کی شفاعت کرتے نظر آتے ہیں۔ وہ تو پہلے ہی سے پاک ہیں اس لئے تمام مسلمانوں میں صرف وہی ایسے ہیں جن کو دفن سے پہلے غسل نہیں دیا جاتا۔ شہادت کی اس قدر فضیلت ہے کہ بعض روایات کے مطابق رسول اللہ صلعم اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ نے اس کی خواہش کی تھی۔ شام کے شہر حُمص میں حضرت خالد بن ولید رضی اللہ کا بہت ہی خوبصورت مزار ہے۔ یہ ترکوں نے بنوایا تھا۔ اس پر چاندی کا پیارا کام ہے۔ میں اپنے چند رفقائے کار کے ساتھ تقریباً سولہ، سترہ سال پیشتر سرکاری دورہ پر ایک کانفرنس میں شرکت کے لئے گیا تھا۔ ہمارے عزیز دوست اور سابق سفیر ڈاکٹر افضال اکبر خان وہاں سفیر تھے۔ ہم حَمص بھی گئے تھے اور یہ اعلیٰ مزار دیکھا تھا ، اسکے باہر ایک 25، 30 فِٹ اونچی چوکور کالم ہے اس پر عربی میں حضرت خالد بن ولید رضی اللہ کا قول درج تھا، ”اللہ پاک میرا پورا بدن تلواروں، تیروں کے زخموں سے پُر ہے مگر میں کتنا بدقسمت ہوں کہ مجھے شہادت نصیب نہیں ہوئی“۔ شہید کا رتبہ اتنا بلند ہے کہ کارگل جھڑپ کے دوران ہندو لیڈروں اور ذرائع ابلاغ نے اپنے ہلاک ہونے والوں کو بھی شہید کہنا شروع کردیا تھا۔
میں نے یہ کالم اس لئے تحریر کیا ہے کہ عوام کوشہادت اور شہید کے بارہ میں صحیح معلومات پیش کرسکوں۔ ہمارے ملک میں بدقسمتی سے اَب ہر مرنے والا شہید کہلانے لگا ہے خواہ کوئی کار کے حادثہ میں، جہاز کے حادثہ میں یا تخریبی کارروائی کے نتیجہ میں مرجائے تو لوگ اس کو شہید کہنے لگتے ہیں۔ ایسے مرنے والوں کا رتبہ ممکن ہے کہ دوسرے لوگوں سے بہتر ہو مگر یہ اصل معنوں میں شہید نہیں کہلاسکتے۔ اور ہمارے یہاں تو مجرموں اور سزایافتہ لوگوں کو بھی یہ لقب دے کر اس اہم اور مقدّس لقب کی سخت توہین کی جاتی ہے۔جب ان کو غسل دیدیا گیا کپڑے اتار کرکفن میں لپٹ دیا تو پھر شہید کے خاص بابرکت نشانات ختم کر دیے تو پھر وہ کہاں شہید رہے۔ خدا کیلئے ایسے مقدّس لقب کے تقدس کو پامال نہ کیجئے۔ شہید کے بارہ میں تفصیلات اردو دائرہ معارف اسلامیہ، دانش گاہ پنجاب، لاہور، جلد۱۱ میں موجود ہیں۔
بشکریہ جنگ ،12مارچ2012
آجکل ہمیں یہ دیکھ کر اور پڑھ کر سخت اَفسوس ہوتا ہے کہ چند نہایت ہی متبّرک اصطلاحات کو نہ صرف غلط طور پر استعمال کیا جاتا ہے بلکہ ان کو کلام الٰہی کے برخلاف،( جس میں نہایت صاف اور غیر مبہم طور پر ان کی تشریح کی گئی ہے) استعمال کیا جارہا ہے۔ ہماری تاریخ ایسی لاتعداد مشہور شخصیات سے بھری پڑی ہیں جو ایسے مقدّس اَلقاب کے مستحق تھے اور ان کو ہی یہ القاب دیے گئے تھے۔
ایک مخصوص مثال ہمارے معاشرہ میں اسکی یہ ہے کہ مقدّس قرآنی زبان کو غلط طریقہ سے استعمال کیا جاتا ہے، حقیقت و سچائی کو چھپا کر اس کے بدلہ اپنے مطلب و مقصد کے معنی و القاب توڑ مروڑ کر پیش کئے جاتے ہیں۔ اسکی تازہ مثال لفظ شہید کا استعمال سیاسی مقاصد کے لئے ہے ۔
کلام مجید میں پہلی سورة فاتحہ میں (آیت 5تا7 ) اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، ”اے پروردگار ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھی سے مدد مانگتے ہیں، ہم کو سیدھے راستہ پر چلا، ان لوگوں کے راستے پر جن پر تو اپنا فضل و کرم کرتا رہا“۔ آپ کو یہ علم ہونا چاہئے کہ جن لوگوں پراللہ تعالیٰ اپنا فضل و کرم کرتا ہے وہ اعلیٰ رتبہ رکھتے ہیں۔ آپ ان میں پیغمبروں، صدیقین، اور شہداء کو شامل کرسکتے ہیں۔ اس مقدّس القاب یا مرتبہ کواللہ تعالیٰ نے نہایت صاف اور غیرمبہم الفاظ میں بیان کیا ہے اور رسول اللہ نے نہایت سادہ اور صاف الفاظ میں اس کی تشریح کردی ہے۔ اسلام کے لاتعداد بہادر اور جرأت مند پیروکاروں نے اپنے اعمال و کردار سے اس کی عملی مثالیں چھوڑی ہیں اور آج بھی جب کافر یا مشرک ہماری سرحدوں کی خلاف ورزی کرتے ہیں توافواج پاکستان کے جانباز اور دلیر جوانان و افسران حقیقی معنوں میں اپنی جان دے کر شہادت کا اعلیٰ رتبہ حاصل کرتے ہیں۔ اس طرح شہید کی تعریف میں کسی قسم کا ابہام نہیں ہے اور ہم بہ آسانی شہادت اور عام ہلاکت میں تفریق یا امتیاز کرسکتے ہیں۔
ہمارے پیارے رسول صلعم نے متعدد احادیث میں فرما یا ہے کہ تمام کاموں کی بنیاد ان کی نیت پر منحصر ہوتی ہے۔ آپ نے شہادت اور شہید کی صفات بھی بیان فرمائی ہیں۔ ان میں پیغمبراسلام کے مشن کی تکمیل کی جدّوجہد و خواہش، اللہ تعالیٰ کے احکامات کی تشہیر اور اس میں کسی قسم کا ذاتی مقصد یا شہرت حاصل کرنا نہ ہو اور نہ ہی مالی فائدہ یا اقتدار کی ہوس و جستجو شامل ہو۔
اگر ان مقاصد کے حصول میں کوئی مسلمان اپنی جان قربان کردے تو اس کو شہادت کا مقدّس رتبہ ملتا ہے۔ اگر اس سے انحراف کیا گیا تو یہ اللہ اور اس کے پیغمبر کے احکامات کی کھلی خلاف ورزی ہے اور صرف سیاسی مقاصد کا حصول ہے۔
دیکھئے کلام مجید میں لاتعدادجگہ شہید کو شہادت یا گواہ کے معنوں میں استعمال ہوا ہے مثلاً سورہ بقرہ (آیت 143,133 )، سورہ نور(آیت6 )، سورہ ق (آیت 21 )، سورہ آلِ عمران(آیت 98 )، سورہ المائدہ ا(آیت 114 )، سورہ القصص (آیت 75 )۔ عربی لغات میں لفظ شہید پر تفصیلی بحث موجود ہے اور شہید اللہ تعالیٰ کے اسما ئے گرامی میں سے ایک اِسم ہے۔
شہید کی جہاں دوسری صفات بیان کی گئی ہیں وہاں ایک صفت یہ بھی ہے کہ (اللہ کی راہ میں ہلاک ہونے یا قتل ہونے والے) کو اس لئے شہید کہتے ہیں کہ جان فروشی کے صلے میں وہ یہ عزّت و شرف پائے گا کہ قیامت کے دن رسول اللہ صلعم کے ساتھ مل کر وہ بھی گزشتہ اُمّتوں کے بارے میں گواہی دے گا۔ حقیقت میں شہید کا اطلاق تو اس شخص پر ہوتا ہے جو اللہ کی راہ میں دشمنان اسلام سے لڑتا ہوا جان قربان کردے۔ لوگوں نے اس کے معانی میں وسعت پیدا کرکے اس زمرہ میں ان لوگوں کو بھی شامل کرلیا جو کسی اور وجہ سے مرجائیں یا ڈوب کر مرجائیں۔ عقل اس قسم کے لوگوں کو شہید کا مقدّس منصب دینا قبول نہیں کرتی ہے۔
قرآن مجید میں لفظ شہید بمعنی مقتول فی سبیل اللہ صرف ایک ہی مرتبہ بصورت جمع شہداء استعمال ہوا ہے۔ سورة النِسا، آیت 69 ، ”جس کسی نے اللہ اور رسول کی اطاعت کی تو بلاشبہ وہ ان لوگون کا ساتھی ہو ا جن پر اللہ تعالیٰ نے رحم کیا یعنی انعام کیایعنی نبیوں، صدیقوں، شہیدوں اور نیکوکاروں کا۔ احادیث میں لفظ مقتول فی سبیل اللہ بکثرت آیا ہے مگر کلام مجید میں شہید (یعنی مقتول فی سبیل اللہ) ایک وضاحتی طریقہ سے بیان کیا گیا ہے مثلاً سورہ اٰلِ عمران آیت 157 میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ، ”(دیکھو) اگر تم اللہ کی راہ میں قتل ہوگئے یا اپنی موت مرگئے تو اللہ کی طرف سے جو رحمت اور بخشش تمھارے حصّہ میں آئے گی وہ یقینا ان تمام چیزوں سے بہتر ہے جس کی پونجی لوگ جمع کیا کرتے تھے“۔ اور آیت نمبر 69 1 میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ”اے پیغمبر جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل ہوتے ہیں ان کی نسبت ایسا خیال نہ کرنا کہ وہ مرگئے ہیں، نہیں ، وہ زندہ ہیں اور وہ اپنے پروردگار کے حضور روزی پارہے ہیں“۔ اور سورہ محمد، آیت 4 تا6 تک میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ ”جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے گئے ہیں اللہ ان کے اعمال کو ضائع نہیں کریگا، ان کو راہ دکھائے گا اور ان کے احوال کو درست کریگا اور اُنھیں بہشت میں داخل کریگا جس سے ان کو روشناس کررکھا ہے“۔
اَحادیث کی کتابوں میں شہید کی اصطلاح خصوصی طور پر اس شخص کیلئے آئی ہے جو کفّار کے ساتھ جنگ کرکے اپنی جان دیدیتا ہے اور اس طرح اپنے ایمان پر سچائی کی مہر لگا دیتا ہے۔ احادیث میں ذکر ہے کہ ایسا شہید قبر میں منکر نکیر فرشتوں کے امتحان سے محفوظ رہتا ہے اور سے نہ ہی برزخ یعنی گناہوں سے پاک کرنے والی آگ سے گزرنا پڑے گا۔ شہدا جنت کے بلند ترین درجہ تک پہنچ جاتے ہیں جو عرش الٰہی سے قریب ترین ہے۔
حدیث میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ شہید کے زخم جو اسکو جہاد میں لگتے ہیں روز جزا تازہ ہوجائینگے اور چمکیں گے اور ان میں سے مشک کی خوشبو آئے گی۔جنت کے رہنے والوں میں سے کوئی بھی زمین پر واپس نہیں آسکے گا لیکن ان مخصوص مراعات کی وجہ سے جو اسے شہادت کی وجہ سے حاصل ہونگی وہ خواہش کرے گا کہ دنیا میں آکر دس مرتبہ پھر شہید ہو۔ شہدا شہادت کے ساتھ ہی تمام گناہوں سے سزا سے بری کردیئے جاتے ہیں۔ بعض روایات میں تو وہ ہمیں دوسرے آدمیوں کی شفاعت کرتے نظر آتے ہیں۔ وہ تو پہلے ہی سے پاک ہیں اس لئے تمام مسلمانوں میں صرف وہی ایسے ہیں جن کو دفن سے پہلے غسل نہیں دیا جاتا۔ شہادت کی اس قدر فضیلت ہے کہ بعض روایات کے مطابق رسول اللہ صلعم اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ نے اس کی خواہش کی تھی۔ شام کے شہر حُمص میں حضرت خالد بن ولید رضی اللہ کا بہت ہی خوبصورت مزار ہے۔ یہ ترکوں نے بنوایا تھا۔ اس پر چاندی کا پیارا کام ہے۔ میں اپنے چند رفقائے کار کے ساتھ تقریباً سولہ، سترہ سال پیشتر سرکاری دورہ پر ایک کانفرنس میں شرکت کے لئے گیا تھا۔ ہمارے عزیز دوست اور سابق سفیر ڈاکٹر افضال اکبر خان وہاں سفیر تھے۔ ہم حَمص بھی گئے تھے اور یہ اعلیٰ مزار دیکھا تھا ، اسکے باہر ایک 25، 30 فِٹ اونچی چوکور کالم ہے اس پر عربی میں حضرت خالد بن ولید رضی اللہ کا قول درج تھا، ”اللہ پاک میرا پورا بدن تلواروں، تیروں کے زخموں سے پُر ہے مگر میں کتنا بدقسمت ہوں کہ مجھے شہادت نصیب نہیں ہوئی“۔ شہید کا رتبہ اتنا بلند ہے کہ کارگل جھڑپ کے دوران ہندو لیڈروں اور ذرائع ابلاغ نے اپنے ہلاک ہونے والوں کو بھی شہید کہنا شروع کردیا تھا۔
میں نے یہ کالم اس لئے تحریر کیا ہے کہ عوام کوشہادت اور شہید کے بارہ میں صحیح معلومات پیش کرسکوں۔ ہمارے ملک میں بدقسمتی سے اَب ہر مرنے والا شہید کہلانے لگا ہے خواہ کوئی کار کے حادثہ میں، جہاز کے حادثہ میں یا تخریبی کارروائی کے نتیجہ میں مرجائے تو لوگ اس کو شہید کہنے لگتے ہیں۔ ایسے مرنے والوں کا رتبہ ممکن ہے کہ دوسرے لوگوں سے بہتر ہو مگر یہ اصل معنوں میں شہید نہیں کہلاسکتے۔ اور ہمارے یہاں تو مجرموں اور سزایافتہ لوگوں کو بھی یہ لقب دے کر اس اہم اور مقدّس لقب کی سخت توہین کی جاتی ہے۔جب ان کو غسل دیدیا گیا کپڑے اتار کرکفن میں لپٹ دیا تو پھر شہید کے خاص بابرکت نشانات ختم کر دیے تو پھر وہ کہاں شہید رہے۔ خدا کیلئے ایسے مقدّس لقب کے تقدس کو پامال نہ کیجئے۔ شہید کے بارہ میں تفصیلات اردو دائرہ معارف اسلامیہ، دانش گاہ پنجاب، لاہور، جلد۱۱ میں موجود ہیں۔
بشکریہ جنگ ،12مارچ2012