بےباک
05-08-2012, 07:21 PM
قابل رحم قوم اور وزیر اعظم کی نا اھلی
قابلِ رحم ہے وہ قوم
جس کے پاس عقیدے تو بہت ہیں
مگر دل یقیں سے خالی ہیں
قابلِ رحم ہے وہ قوم
جو ایسے کپڑے پہنتی ہے
جس کے لیے کپاس
اُن کے اپنے کھیتوں نے پیدا نہیں کی
اورقابلِ رحم ہے وہ قوم
جو باتیں بنانے والے کو
اپنا سب کچھ سمجھ لیتی ہے
اور چمکتی ہوئی تلوار سے بنے ٹھنے فاتح کو
اپنا ان داتا سمجھ لیتی ہے
اور قابلِ رحم ہے وہ قوم
جو بظاہر خواب کی حالت میں بھی
حوس اور لالچ سے نفرت کرتی ہے
مگر عالم بیداری میں
مفاد پرستی کو اپنا شعار بنا لیتی ہے
قابلِ رحم ہے وہ قوم
جو جنازوں کے جلوس کے سوا
کہیں اور اپنی آواز بلند نہیں کرتی
اور ماضی کی یادوں کے سوا
اس کے پاس فخرکرنے کا کوئی سامان نہیں ہوتا
وہ اس وقت تک صورتِ حال کے خلاف احتجاج نہیں کرتی
جب تک اس کی گردن
عین تلوار کے نیچے نہیں آجاتی
اور قابلِ رحم ہے وہ قوم
جس کے نام نہاد سیاستدان
لومڑیوں کی طرح مکّار اور دھوکے باز ہوں
اور جس کے دانشور
محض شعبدہ باز اور مداری ہوں
اور قابلِ رحم ہے وہ قوم
جو اپنے نئے حکمران کو
ڈھول بجا کر خوش آمدید کہتی ہے
اور جب وہ اقتدار سے محروم ہوں
تو ان پر آوازیں کسنے لگتی ہے
اور قابلِ رحم ہے وہ قوم
جس کے اہلِ علم و دانش
وقت کی گردش میں
گونگے بہرے ہو کر رہ گئے ہوں
اور قابلِ رحم ہے وہ قوم
جو ٹکڑوں میں بٹ چکی ہو اور جس کا ہر طبقہ
اپنے آپ کو پوری قوم سمجھتا ہو
خلیل جبران
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسلام آباد … سپريم کورٹ نے وزير اعظم کے خلاف توہين عدالت کيس کا تفصيلي فيصلہ جاري کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہيں دي گئي سزا کے ممکنہ اثرات ميں 5 سال کي نا اہلي ہو سکتي ہے، عدالتي حکم پر عمل کرنا وزيراعظم کي آئيني ذمہ داري ہے ، وہ کسي اور پرالزام عائد نہيں کرسکتے، سپريم کورٹ نے 26 اپريل کو مختصر فيصلہ سناتے ہوئے وزيراعظم کو ايک منٹ سے بھي کم سزائے قيد سنائي تھي. 7رکني بينچ کے سربراہ جسٹس ناصرالملک نے 71 صفحات پر مشتمل تفصيلي فيصلہ لکھا ہے جبکہ جسٹس آصف کھوسہ نے 6 صفحات کا اضافي نوٹ بھي تحرير کيا ہے. تفصيلي فيصلے کے پيرا گراف 71کے مطابق وزير اعظم کو دي گئي سزا کا ممکنہ نتيجہ پارليمنٹ کي رکنيت سے 5 سال کي نااہلي بھي ہے. فيصلے ميں لکھا گيا ہے کہ جب ملک کا اعلي ترين عہدے دار عدالتي حکم پر عمل نہيں کرے گا تو سارا عدالتي نظام تباہ ہوجائے گا، وزيراعظم نے جان بوجھ کر عدالتي حکم کا تمسخر اڑايا، ممکنہ نا اہلي سے متعلق وزيراعظم کے وکيل کو معلوم تھا ليکن انہوں نے اس پر ايک لفظ بھي نہيں بولا. تفصيلي فيصلے کے مطابق ايڈوائس ملنے کے بعد بھي عدالتي حکم کے مطابق سوئس حکام کو خط لکھنے کے حتمي فيصلے کا اختيار وزيراعظم کو تھا، عدالتي حکم کي بطور چيف ايگزيکٹو پيروي کرنا وزيراعظم کي آئيني ذمہ داري ہے. وزيراعظم کو معاملہ 2 بار بھيجا گيا تھا، انہوں نے جان بوجھ کر عمل نہيں کيا، معاملہ سيدھا تھا، عدالتي حکم پر کوئي دو رائے نہيں ہوسکتيں، جبکہ وزيراعظم نے معاملے کي وضاحت کيلئے کبھي عدالت سے رجوع نہيں کيا اور وہ ذمہ داري کا الزام کسي اور پر عائد نہيں کرسکتے. فيصلے ميں لکھا گيا ہے کہ صدر کے آئيني استثناء کے معاملے پر دليل مان لي جائے تو خطرناک روايت قائم ہوجائے گي اور کوئي بھي کہے گا کہ اس کي رائے کے مطابق ايسا نہيں ہوسکتا.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے خلیل جبران کی نظم اضافی نوٹ کے ساتھ لکھ دی
اور یہ بھی لکھا ، ًًً
““““““قابل رحم ہے وہ قوم جو ایک مجرم کو ہیرو سمجھتی ہو ،“““““
““ قابل رحم ہے وہ قوم جس کے لیڈر مجرم اور طاقتور ہوں اور وہ جرم پر سزا قبول نہ کرنا چاہتے ہوں ،
“““اگر ایگزیکٹو عدالتی فاصلے نہ مانتے ہوں اور انتظامی ڈھانچہ گرانے پر تلے ہوئے ہوں ۔تو عوام کو عدلیہ کے اس فیصلہ کے ساتھ دینا چاہیے ،
عوام نے ہی عدلیہ کو مجرموں کو سزا دینے کا اختیار دیا ہے ،ایسے سنگین مسلہ کو اگر روکا نہ گیا تو پوری قوم کو لپیٹ میں لے سکتا ہے ،
قابلِ رحم ہے وہ قوم
جس کے پاس عقیدے تو بہت ہیں
مگر دل یقیں سے خالی ہیں
قابلِ رحم ہے وہ قوم
جو ایسے کپڑے پہنتی ہے
جس کے لیے کپاس
اُن کے اپنے کھیتوں نے پیدا نہیں کی
اورقابلِ رحم ہے وہ قوم
جو باتیں بنانے والے کو
اپنا سب کچھ سمجھ لیتی ہے
اور چمکتی ہوئی تلوار سے بنے ٹھنے فاتح کو
اپنا ان داتا سمجھ لیتی ہے
اور قابلِ رحم ہے وہ قوم
جو بظاہر خواب کی حالت میں بھی
حوس اور لالچ سے نفرت کرتی ہے
مگر عالم بیداری میں
مفاد پرستی کو اپنا شعار بنا لیتی ہے
قابلِ رحم ہے وہ قوم
جو جنازوں کے جلوس کے سوا
کہیں اور اپنی آواز بلند نہیں کرتی
اور ماضی کی یادوں کے سوا
اس کے پاس فخرکرنے کا کوئی سامان نہیں ہوتا
وہ اس وقت تک صورتِ حال کے خلاف احتجاج نہیں کرتی
جب تک اس کی گردن
عین تلوار کے نیچے نہیں آجاتی
اور قابلِ رحم ہے وہ قوم
جس کے نام نہاد سیاستدان
لومڑیوں کی طرح مکّار اور دھوکے باز ہوں
اور جس کے دانشور
محض شعبدہ باز اور مداری ہوں
اور قابلِ رحم ہے وہ قوم
جو اپنے نئے حکمران کو
ڈھول بجا کر خوش آمدید کہتی ہے
اور جب وہ اقتدار سے محروم ہوں
تو ان پر آوازیں کسنے لگتی ہے
اور قابلِ رحم ہے وہ قوم
جس کے اہلِ علم و دانش
وقت کی گردش میں
گونگے بہرے ہو کر رہ گئے ہوں
اور قابلِ رحم ہے وہ قوم
جو ٹکڑوں میں بٹ چکی ہو اور جس کا ہر طبقہ
اپنے آپ کو پوری قوم سمجھتا ہو
خلیل جبران
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسلام آباد … سپريم کورٹ نے وزير اعظم کے خلاف توہين عدالت کيس کا تفصيلي فيصلہ جاري کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہيں دي گئي سزا کے ممکنہ اثرات ميں 5 سال کي نا اہلي ہو سکتي ہے، عدالتي حکم پر عمل کرنا وزيراعظم کي آئيني ذمہ داري ہے ، وہ کسي اور پرالزام عائد نہيں کرسکتے، سپريم کورٹ نے 26 اپريل کو مختصر فيصلہ سناتے ہوئے وزيراعظم کو ايک منٹ سے بھي کم سزائے قيد سنائي تھي. 7رکني بينچ کے سربراہ جسٹس ناصرالملک نے 71 صفحات پر مشتمل تفصيلي فيصلہ لکھا ہے جبکہ جسٹس آصف کھوسہ نے 6 صفحات کا اضافي نوٹ بھي تحرير کيا ہے. تفصيلي فيصلے کے پيرا گراف 71کے مطابق وزير اعظم کو دي گئي سزا کا ممکنہ نتيجہ پارليمنٹ کي رکنيت سے 5 سال کي نااہلي بھي ہے. فيصلے ميں لکھا گيا ہے کہ جب ملک کا اعلي ترين عہدے دار عدالتي حکم پر عمل نہيں کرے گا تو سارا عدالتي نظام تباہ ہوجائے گا، وزيراعظم نے جان بوجھ کر عدالتي حکم کا تمسخر اڑايا، ممکنہ نا اہلي سے متعلق وزيراعظم کے وکيل کو معلوم تھا ليکن انہوں نے اس پر ايک لفظ بھي نہيں بولا. تفصيلي فيصلے کے مطابق ايڈوائس ملنے کے بعد بھي عدالتي حکم کے مطابق سوئس حکام کو خط لکھنے کے حتمي فيصلے کا اختيار وزيراعظم کو تھا، عدالتي حکم کي بطور چيف ايگزيکٹو پيروي کرنا وزيراعظم کي آئيني ذمہ داري ہے. وزيراعظم کو معاملہ 2 بار بھيجا گيا تھا، انہوں نے جان بوجھ کر عمل نہيں کيا، معاملہ سيدھا تھا، عدالتي حکم پر کوئي دو رائے نہيں ہوسکتيں، جبکہ وزيراعظم نے معاملے کي وضاحت کيلئے کبھي عدالت سے رجوع نہيں کيا اور وہ ذمہ داري کا الزام کسي اور پر عائد نہيں کرسکتے. فيصلے ميں لکھا گيا ہے کہ صدر کے آئيني استثناء کے معاملے پر دليل مان لي جائے تو خطرناک روايت قائم ہوجائے گي اور کوئي بھي کہے گا کہ اس کي رائے کے مطابق ايسا نہيں ہوسکتا.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے خلیل جبران کی نظم اضافی نوٹ کے ساتھ لکھ دی
اور یہ بھی لکھا ، ًًً
““““““قابل رحم ہے وہ قوم جو ایک مجرم کو ہیرو سمجھتی ہو ،“““““
““ قابل رحم ہے وہ قوم جس کے لیڈر مجرم اور طاقتور ہوں اور وہ جرم پر سزا قبول نہ کرنا چاہتے ہوں ،
“““اگر ایگزیکٹو عدالتی فاصلے نہ مانتے ہوں اور انتظامی ڈھانچہ گرانے پر تلے ہوئے ہوں ۔تو عوام کو عدلیہ کے اس فیصلہ کے ساتھ دینا چاہیے ،
عوام نے ہی عدلیہ کو مجرموں کو سزا دینے کا اختیار دیا ہے ،ایسے سنگین مسلہ کو اگر روکا نہ گیا تو پوری قوم کو لپیٹ میں لے سکتا ہے ،