حکایت سعدیؒ ، اچھا سلوک

بیان کیا جاتا ہے کہ ایک بادشاہ کو شکار کھیلتے ہوئے جنگل میں رات ہو گئی سخت سردی کا موسم تھا۔ اس لیے جستجو ہوئی کہ رات گزارنے کے لیے کوئی مکان مل جائے۔ اتفاق سے ایک کسان کا مکان نظر آیا۔ بادشاہ نے کہا کہ شب گزارنے کے لیے یہ مکان ناموزوں نہیں۔ لیکن اس کے وزیر نے اتفاق نہ کیا اس نے کہا کہ عالی جاہ، یہ بات کسی طرح بھی مناسب نہیں کہ بادشاہ ایک کسان کا مہمان بنے اور اس سے رات بسر کرنے کی اجازت لے۔ ہمارے لیے بہتر صورت یہی ہے کہ کھلے میدان میں خیمے گاڑ کر آگ روشن کریں اور مشکل کی یہ گھڑی گزار دیں۔ بادشاہ نے اس بات سے اتفاق کیا لیکن کسی طرح کسان کو بھی اس گفتگوسے آگاہی ہو گئی۔ اس نے اپنی حیثیت کے مطابق کھانے پینے کا کچھ سامان لیا اور بادشاہ کی خد مت میں حاضر ہو کر بہت ادب سے بولا، حضور والا کی شان اس بات سے ہر گز کم نہ ہوتی کہ ایک دہقان کے گھر کو اپنے قدموں سے عزت بخشتے لیکن یہ ناچیز اس عنایت سے ضرور سرفراز ہو جاتا۔ بادشاہ نے اس کے خلوص اور ادب کی قدر کی، رات اس کے مکان میں بسر کی اور صبح کے وقت جب اپنے دارالحکومت کی طرف روانہ ہوا تو دیہاتی کو خلعت اور انعام و اکرام سے نوازا۔دیہاتی کی خوشی اور عقیدت قابل دید تھی۔ وہ بادشاہ کے گھوڑے کے ساتھ چل رہا تھا ۔ حضرت سعدیؒ نے اس حکایت میں یہ بات بتائی ہے کہ ہم مرتبہ لوگوں کے مقابلے میں کم حیثیت لوگوں کے ساتھ معمولی سلوک بھی بہت فائدہ پہنچاتا ہے۔ کیونکہ وہ اسے اپنی خوش نصیبی خیال کر کے زیادہ شکر گزار ہوتے ہیں۔ نیز یہ کہ یہ بات ذی حیثیت لوگوں کے فرائض میں شامل ہے کہ وہ غریبوں اور کمزوروں کو حقیر جان کر ان سے بے اعتنائی نہ برتیں بلکہ یہ بات تسلیم کریں کہ انسان ہونے کی حیثیت سے وہ بھی بلند درجہ رکھتے ہیں۔
?? ????