وقت کے موجود سے باہر نکلنے کی سزا
عمر بھر سہتے رہو گے ہاتھ ملنے کی سزاجزیۂ انکار دینا تو پڑے گا دہر کورات دن اب کاٹیے کمرے میں چلنے کی سزاتم اسے چاہو نہ چاہو، واقعہ ایسا ہی ہےجو ابھرتا ہے اُسے ملتی ہے ڈھلنے کی سزا
غم زیادہ پی لیا، اب مستقل پیتے رہوسخت تر ہے اس کے نشے میں سنبھلنے کی سزامیں نے بھی پائی ہے اپنی ضد میں سورج کی طرحایک عالم گیر تنہائی میں جلنے کی سزاتم زیاں اندیش تو ہو لو، ملے گی پھر تمہیںشہرِ اشیا کے کھلونوں سے بہلنے کی سزاآفتاب اقبال شمیم
?? ????