سات ستمبر یوم تحفظ ختم نبوتﷺ ۔۔۔۔۔ پروفیسر ڈاکٹرمحمد صدیق خان قادری
عقیدہ ختم نبوتﷺ پر ایمان اور اس کا تحفظ دین کا لازمی اور بنیادی تقاضا ہے
ختم نبوت ﷺدین کا بنیادی عقیدہ ہے اس پر اسلام کی پوری عمارت قائم ہے ۔ عقیدہ ختم نبوت ﷺپر ایمان اور اس کا تحفظ دین کا لازمی اور بنیادی تقاضا ہے ۔
مسلمانوں کا اجماعی عقیدہ ہے کہ حضورسرور کائنات ﷺ اللہ تعالیٰ کے آخری نبی ہیں۔ آپ ﷺکے بعد قیامت تک کوئی نبی نہیں آئے گا۔قرآن کریم آخری آسمانی کتاب اور اُمت محمدیہ ﷺ آخری اُمت ہے ۔اُمت کا اس با ت پر بھی اجماع ہے کہ ختم نبوت ﷺ کا منکر دائرہ اسلام سے خارج ہے ۔ مسیلمہ کذاب ، اسود عنسی اور سجاح بنت حارث نے بھی جھوٹے دعوے کئے یہ سب ذلت و رسوائی سے ہمکنار ہوئے۔
سامراجی قوتوں نے حضور سرور کائنات ﷺ کی عظمت و محبت کو مسلمانوں کے دلوں سے ختم کرنے کیلئے مرزا قادیانی کو (معاذ اللہ) نبی کی صورت میں پیش کیا ، سادہ لوح مسلمانوں کو صراط مستقیم سے ہٹانے کی ناکام کوشش کی۔ قادیانیت ، اسلام کے خلاف سازش ہے۔ صلحائے اُمت اور علماء و مشائخ نے متحد ہو کر ان باطل عقائد کی بیخ کنی کیلئے ہر محاذ پر ان کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور انہیں دندان شکن جواب دیا ۔ علمائے کرام نے قرآن و حدیث کی روشنی میں ختم نبوت کا صحیح مفہوم اپنی تالیفات ، تصانیف اور بیانات کے ذریعے واضح کر کے اُمت مسلمہ کی صحیح ، فکری، علمی اور اعتقادی رہنمائی کی، جھوٹے مدعیان نبوت کی ناپاک سازشوں کو ناکام بنایا اور اس فتنہ کو ہمیشہ کیلئے ختم کر دیا۔ ان اکابر اُمت میں پیر مہر علی شاہ گولڑویؒ ، مولانا احمد رضا خان بریلویؒ ،پیر جماعت علی شاہؒ علی پوری، سیّد عطاء اللہ شاہ بخاریؒ،سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ،علامہ انور شاہ کشمیریؒ ، مولانا سید محمد یوسف بنوری ؒ ، مولانا مفتی محمودؒ ، محمد تقی عثمانی، مولانا عبدالستار خان نیازی ؒ، علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی ؒ ، مولانا محمد بخش مسلم، مولانا سمیع الحقؒ ، مولانا محمد حیات ؒ، مولانا تاج محمود، مولانا عبدالرحیم اشعرؒ،ؒ سید شوکت حسین گیلانی ؒ، علامہ سید ابولبرکات قادری ؒ ، علامہ سید احمد سعید کاظمی ؒ، صاحبزادہ محمود شاہ گجراتی ؒ، علامہ عبدالمصطفیٰ الازہری ؒ ؒاور مفتی محمد حسین نعیمی ؒکے اسمائے گرامی قابل ذکر ہیں۔
۔1953ء میں سید ابوالحسنات قادریؒ (خطیب جامع مسجد وزیر خان لاہور) تھے ۔ 9مارچ 1949ء کو پہلی دستور ساز اسمبلی میں پیش کی جانے والے قرار داد مقاصد کے مؤسسین میں شامل ہیں ۔ 1953ء میں مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاری ، مولانا سید دائود غزنوی اور سید مظفر علی شمسی سمیت تمام دیگر علمائے کرام نے علامہ سید ابو الحسنات قادری کو متفقہ طور پر مجلس عمل تحریک تحفظ ختم نبوت ﷺ کا قائد تسلیم کیا ۔ اس دوران دیگر علماء کے ہمراہ آپ بھی گرفتار ہوئے۔کچھ گرفتار علماء حیدرآباد اور سکھر سنٹرل جیل میں نظر بند رہے ۔شدید گرمی میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ جیل میں مولانا کو جب یہ اطلاع ملی کہ مولانا مودودی اور عبدالستارخان نیازی کے علاوہ ان کے اکلوتے فرزند مولانا امین الحسنات سید خلیل احمد قادری کو تحریک ختم نبوت میں حصہ لینے پر سزائے موت سنا دی گئی ہے تو مولانا نے نہایت استقامت سے فرمایا ’’اے اللہ ! میرے خلیل کی قربانی کو قبول فرما ‘‘ ۔
۔18جنوری 1953ء کو تمام مکاتب فکر کے علماء ، مذہبی اور سیاسی جماعتوں کے نمائندوں پر مشتمل آل پاکستان مسلم پارٹیز کنونشن میں مجلس تحریک تحفظ ختم نبوت قائم کی گئی جس میں علامہ سید ابوالحسنات قادری کو صدر نامزد کر دیا گیا۔ اس کنونشن میں طے پایا کہ سابق وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین سے مطالبہ کیا جائے کہ ایک ماہ میں قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے اور سابق وزیر خارجہ ظفر اللہ خان سمیت کلیدی عہدوں پر فائز مرزائیوں کو برطرف کیا جائے ورنہ سول نافرمانی کی تحریک کا آغاز کر دیا جائے گا۔
سابق وزیراعظم خواجہ ناظم الدین سے ملاقات کرنے والے وفد میں علامہ ابوالحسنات قادری ، مولانا محمد بخش مسلم، مولانا عبدالحامد بدایونی ، صاحبزادہ سید فیض الحسن ، مولانا شاہ احمد نورانی ،مولانا احتشام الحق تھانوی ، شیخ حسام الدین ، ماسٹر تاج دین انصاری ، مولانا مرتضیٰ احمد خان میکش اور دیگر اکابرین شامل تھے ۔
تحریک ختم نبوت 1953ء کے تحقیقاتی کمیشن کے سربراہ سابق جسٹس منیر کی انکوائری رپورٹ کے مطابق مسلم لیگ کی صوبائی کونسل کے اجلاس منعقدہ 12 جون 1952ء میں قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کی قرارداد علامہ سید احمد سعید کاظمی ممبر ، صوبائی مسلم لیگ کونسل نے پیش کی تھی ۔ اس قرار داد میں کہا گیا تھا کہ ’’چونکہ قادیانی خارج ازاسلام ہیں اس لیے ان کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے اور حکومت کو اس اعلان میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے ‘‘۔
اسی طرح کی ایک اور قرارداد 14 جولائی 1952ء کو لاہور میں پنجاب صوبہ مسلم لیگ کونسل کی مجلس عاملہ میں پیش کی گئی ۔ جس کے محرک قاضی مرید احمد اور مؤید صاحبزادہ سید محمود شاہ گجراتی تھے ۔مولانا عبدالستار خان نیازی نے 28 فروری 1953ء کو جامع مسجد وزیر خان لاہور کو اپنا ہیڈ کوارٹر بنا کر تحریک ختم نبوت کا آغاز کیا ۔ آپ نے بطور ممبر پنجاب اسمبلی میں قادیانیوں کے خلاف قرار داد پیش کرنے کا پروگرام بنایا لیکن اس سے پیشتر ہی آپ کو شاہی قلعہ لاہور میں نظر بند کر دیا گیا ۔ اس کے بعد 9اپریل کو جیل بھیج دیا گیا، 16 اپریل سے 25اپریل تک مقدمہ چلتا رہا۔ بالآخر 7مئی کو فوجی عدالت نے سزائے موت کا حکم سنا دیا ۔ مولانا نیازی 7 مئی سے 14 مئی تک پھانسی کی کوٹھڑی میں مقید رہے ۔ 29 اپریل 1955ء کو ضمانت پر رہائی ملی۔ آپ مجموعی طور پر 2سال 1ماہ اور 6 دن جیل میں رہے ۔
۔،7ستمبر 1974ء کا دن ہماری قومی اور ملی تاریخ میں خاص اہمیت کا حامل ہے اس دن مسلمانوں کے دیرینہ مطالبہ پر اس وقت کی قومی اسمبلی نے قادیانیوں کو جمہوری اور پارلیمانی بنیاد پر غیر مسلم اقلیت قرار دینے کا تاریخ ساز فیصلہ کیا ۔یہ یادگار فیصلہ مسلمانوں کی طویل جدوجہد کا نتیجہ تھا ۔
اس تحریک کا آغاز اس طرح ہوا کہ 22مئی 1974ء کو نشتر میڈیکل کالج ملتان کے طلباء کا ایک گروپ سیر و تفریح کی غرض سے بذریعہ چناب ایکسپریس پشاور جا رہا تھا جب ٹرین ربوہ پہنچی تو قادیانیوں نے خرافات پر مشتمل لٹریچر تقسیم کیا ۔اس سے طلباء میں اشتعال پیدا ہوا۔انہوںنے ختم نبوت زندہ باد اور قادیانیت مردہ باد کے نعرے لگائے۔ 29 مئی کو قادیانی مسلح غنڈوں نے ربوہ اسٹیشن پر طلباء کی مخصوص بوگی کو آگ لگانے کی کوشش کی بعد ازاں انکے ڈبے کو گھیرے میں لے کر وحشیانہ تشدد کیا ۔ اس دل خراش سانحہ کے بعد تمام مکاتب فکر کے علماء اور مذہبی اور سیاسی جماعتوں پر مشتمل مجلس عمل تحفظ ختم نبوت کا قیام عمل میں لایا گیا ۔ مولانا سید محمد یوسف بنوریؒ صدر منتخب ہوئے ۔ مجلس عمل نے قادیانیوں کے خلاف تحریک چلانے کا اعلان کر دیا ۔ ملک بھر میں اجتماعات منعقد ہوئے اور جلوس نکالے گئے ۔
واقعہ کی تحقیقات کے لیے سابق جسٹس صمدانی کی سربراہی میں ایک کمیشن مقرر کیا گیا جس نے 112 صفحات پر مشتمل حتمی رپورٹ سابق وزیر اعلیٰ حنیف رامے کو پیش کر دی ۔ مجلس عمل نے مطالبات تسلیم کروانے کیلئے 14جون 1974ء کو ملک گیر ہڑتال کا اعلان کیا اور قادیانیوں کے سوشل بائیکاٹ کی اپیل کی ۔ یہ ہڑتال کامیاب رہی، سوشل بائیکاٹ کا طریقہ بھی نہایت مؤثر ثابت ہوا۔
پاکستان کی قومی اسمبلی میں قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کی تاریخی قرار داد علامہ شاہ احمد نورانی نے پیش کی ۔ قومی اسمبلی میں قادیانی جماعت کے دونوں گروپوں ربوہ گروپ اور لاہوری گروپ کو اپنے عقائد اور جماعتی مؤقف پیش کرنے کو کہا گیا ۔ اٹارنی جنرل یحییٰ بختیار نے بہترین صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتے ہوئے قادیانی جماعت کے سربراہ مرزا ناصر پر 11 روز جرح کی ۔ ممتاز مذہبی و سیاسی رہنمائوں نے پوری تندہی اور جانفشانی سے قومی اسمبلی میں قادیانیت کو اس کے منطقی انجام تک پہنچانے میں تاریخ ساز کردار ادا کیا ۔
بالآخر قومی اسمبلی نے 7ستمبر 1974ء کو اس تاریخی قرار داد کو متفقہ طور پر منظو رکر لیا ۔ جس میں قادیانیوں اور مرزائیوں کو مکمل طور پر غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا تھا ۔
فتح باب نبوتﷺ پہ بے حد درود
ختم دور رسالت ﷺپہ لاکھوں سلام
اس موقع پر ہمیں ان تمام منتخب ارکان قومی اسمبلی اور سینٹ کو یاد رکھنا چاہئے جنہوں نے قرارداد کی زبردست حمایت کی، اور بل پر سائن کئے ، جنہوں نے جید علماء کی بھر پور معاونت کی۔ان میں سرفہرست سابق وزیر اعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو مرحوم ہیں۔ انہوںنے اس قرار داد کی مکمل حمایت کی اور فیصلے پر عمل درآمد بھی کروایا۔۔ نوابزادہ نصراللہ خان اور خان عبدالولی خان سمیت اس فتنے کی سرکوبی میں مدد دینے والے تمام سابق ارکان اسمبلی اور سیاست دان بھی مبارکباد کے مستحق ہیں۔
اس طرح مسلمانوں کی ایک سو سالہ جدوجہد رنگ لائی اور یہ مقدس دینی تحریک کامیاب ہوئی۔
?? ????