اُمِّ سُلَیمؓ کا مہر تمام مسلمان عورتوں میں سب سے بہتر اور افضل

حضرت ام سلیمؓ کے خاوند مالک بن نضر یوں توخوش اطوار تھے مگر قسمت نے ساتھ نہ دیا اور وہ ایمان سے محروم رہے۔ ام سلیمؓ کو اس بات کا افسوس تھا لیکن کچھ کر نہ سکتی تھیں۔ بیوہ ہو جانے کے کچھ عرصہ بعد انہیں اپنے ہی قبیلے کے ایک شخص زید بن سہل المعروف ابوطلحہ نے نکاح کا پیغام بھیجا۔ ابوطلحہ گوناگوں خوبیوں کے مالک تھے لیکن بت پرست تھے۔ انہوں نے لکڑی کا ایک بت اپنے گھر میں سجا رکھا تھا اور اس کی پرستش کیا کرتے تھے۔ ام سلیمؓ نے ان کا پیغام ملنے پر پیغام لانے والی خاتون کے ذریعے انہیں بلا بھیجا۔ جب وہ آئے تو آپؓ نے انہیں کہا کہ میں ایک اللہ کو ماننے والی اور محمد رسول اللہﷺ کی پیروکار ہوں اور تم بت کو پوجتے ہو، جسے تم نے خود ایک حبشی کو لکڑی دے کر بنوایا تھا۔ اس صورتحال میں تمھیں اپنے خاوند کے طور پر میں کیسے قبول کر سکتی ہوں۔ ابوطلحہ حقیقت کو سمجھ گئے اور ان کی آنکھیں کھل گئیں۔ انہوں نے بت پرستی سے توبہ کر لی۔ قبول اسلام کا ارادہ ظاہر کیا تو اُمِّ سُلَیمؓ کو بڑی خوشی ہوئی۔ ان کے پیغام کو بھی قبول کر لیا اور ان کے قبول اسلام ہی کو اپنا مہر قرار دے دیا۔ تاریخ اسلام میں اس انداز کا مہر مقرر کرنے کا یہ پہلا اور مثالی واقعہ تھا۔ صحابہ کرام ؓ کہا کرتے تھے کہ اُمِّ سُلَیمؓ کا مہر تمام مسلمان عورتوں میں سب سے بہتر اور افضل ہے۔