۔ 23مارچ1940ء قیام پاکستان کی منزل کیسے قریب آئی ؟ ۔۔۔۔۔۔ آزاد بن حیدر
پاکستان کی تحریک آزادی کا سب سے اہم موڑ 1857کی جنگ آزادی تھی، اس انقلاب 1857ء کے تمام مورخین کی رائے یہی ہے کہ یہ تنہا مسلمانوں کی جدوجہد نہ تھی بلکہ کمپنی کے انگریز حکام کی بدعنوانیوں اور مظالم کے خلاف ہندو مسلم آبادی کا مشترکہ احتجاج اور ان کے اقتدار کے خلاف اجتماعی تحریک تھی۔ بنگال سول سروس کا انگریز افسر ایک کتابچے میں لکھتا ہے : ’’انقلاب 1857ء مسلمانوں کی منصوبہ بندی تھی۔ مسلمان بنیادی طورپر آزادی پسند ہیں، وہ کسی دوسری قوم کے ماتحت نہیں رہ سکتے۔ وہ اطاعت بھی کرتے ہیں تو مجبوری سے اور آزادی کی سوچتے رہتے ہیں۔ وہ سمجھتے تھے کہ انگریزوں کے بعد عنان حکومت ان کو مل جائے گی ، ہندوستانی مسلمان اس حقیقت کو کبھی فراموش نہیں کرسکتے کہ وہ اس ملک پر صدیوں تک حکمران رہے ہیں ۔ انہوں نے جب دیکھا کہ سپاہیوں میں عدم اطمینانیت پائی جاتی ہے تو آزادی کی تحریک کو ہوا دینے کے لئے کہا کہ کار تو سوں میں گائے اور سور کی چربی مقامی مذاہب کی توہین کے لیے ملائی جاتی ہے‘‘۔
ہندو مسلم کشیدگی کی سازش
اس لیے ا نگریزوں نے ہندوئوں کو اپنی نوازشات کا مرکز بنا لیا تاکہ ضرورت پڑنے پر انہیں مسلمانوں کے خلاف استعمال کیا جاسکے، اسی ذہنیت کے تحت ہندوئوں اور مسلمانوں کے درمیان اختلاف پیدا کرنے کے لیے ایسی کتب مرتب کی گئیں جو دونوں فرقوں کے درمیان اختلاف کی خلیج وسیع کریں تاکہ مسلمان انگریزوں کے خلاف کبھی آزادی کی بات کریں تو ہندو ان کا ساتھ نہ دیں۔ ایک انگریز مصنف اپنی کتاب کے دیباچے میں اپنے عزائم کا اظہاران الفاظ میں کرتا ہے:
’’اس کتاب کے مطالعے سے ان (ہندوئوں) کے دلوں میں مسلمانوں کے دور حکومت سے محبت اور ہمارے عہد سے نفرت ختم ہو جائے گی جو یوں تو خاصے تعلیم یافتہ ہیں مگر ماضی کے ثنا خواں ہیں۔ جب انہیں اصل حقائق یا انگریزی افترا پردازیاں معلوم ہو گی جو ان صفحات میں پیش کی گئی ہیں تو ہم سے نفرت کرنے والے تعلیم یافتہ ہندوئوں پر کوئی اعتبار نہیں کرے گا، ان جلدوں کے مطالعے سے محب وطن نوجوانوں پرواضح ہو جائے گا کہ اگر وہ اس دور تاریک میں اس قسم کی باتیں کرتے تو ان کے خلاف شدید کارروائی کی جاتی۔جب دلوں میں تعصب اور نفرت وبغض کا زہر موجود ہو تو فاتح قوم اس قوم کو مٹانے میں کیا کچھ نہ کر گزرے گی، جسے وہ اپنے اقتدار کے لیے ایک مستقل خطرہ سمجھتی ہو، جنگ پلاسی کے بعد ان کی تمام تر مساعی مسلمانو ں کو اقتصادی اور سیاسی طور پر پست حال بنا کر ان کے دماغ سے نشہ حکومت دور کرنے کے لیے وقف رہیں۔ اس غرض کے لیے اولین اقدام یہ کیا گیا کہ مسلم خواص سے ان کا بڑا ذریعہ آمدنی ، مال گزاری کی فراہمی چھین لیا گیا۔ مسلم عہد حکومت اور کمپنی کے ابتدائی دور میں مالیات کے بڑے بڑے عہدے مسلمانوں کے پاس رہے لیکن کاشت کاروں سے براہ راست معاملہ کرنے کا دستور ہندو ایجنٹوں کے ہاتھوں میں رہا جو انگریزی محکمہ مالیات کے ما تحت تھے اور مال گزاری مسلمان عمال تک پہنچاتے تھے۔ لیکن لارڈ کارنوالس کے عہد میں بندوبست دوامی کے ذریعے بقول ہنٹر ’’مسلمانوں کا کاروبارزبردستی ان ہند و بیوپاریوں اور ایجنٹوں کے حوالے کر دیا گیا جو حکومت اور ٹیکس جمع کرنے والوں (مسلمان زمینداروں اور جاگیر داروں ) کے درمیان واسطے کا کام دیتے تھے اور انہیں مالک قرار دے دیا گیا۔ جس سے مسلمانوں کی عظمت ختم ہو گئی۔ ہنٹر کے خیال میں، یہ سب سے کاری ضرب تھی جو مسلمانوں کے مفاد پر لگائی گئی۔ یہ ضرب اتنی پر فریب تھی کہ اس کا قبل از وقت اندازہ نہ مسلمانوں ہی کو ہو سکا نہ انگریزوں کو۔
کانگریس صرف ہندوئوں کومنظم
کرنے کے لیے بنائی گئی تھی
ہندوئوں کو منظم کرنے اور مسلمانوں کو غلام رکھنے کیلئے لارڈ ڈفرن (گورنر جنرل ؍وائسرائے ) کے ایما پر مسٹر اے اوہیوم نے انڈین نیشنل کانگریس کی بنیاد رکھی۔ ہیوم کی سوانح عمری میں جو تین بنیادی اصول اس جماعت کے قرار پائے ان میں ہندوستان میں رہنے والے تمام مختلف النوع عناصر کو ایک قوم میں اکٹھا کرنا، اس طرح سے وجود میں آنے والی قوم میں بتدریج روحانی، اخلاقی ، سماجی اور سیاسی تصورات پیدا کرنا اور ہندوستان اور برطانیہ کے باہمی روابط کو مضبوط کرنا اورنا انصافیوں کو ختم کرناشامل تھے۔
متذکرہ بالا خیالات اور کانگریس کی تشکیل کے مقاصد کو پڑھا جائے تو اس میں مسلمان قوم کا ذکر نہیں آتا۔ یہاں نہ کسی الگ فلسفہ حیات ، کسی الگ تاریخ یا کسی الگ روحانی و ثقافتی طرز عمل کا ذکر ہوا ہے۔ اس تنظیم کے قیام کامقصد وہی ہے جس کا ذکر ملکہ برطانیہ کے اعلان یا فرمان میں یکم نومبر 1858ء کو ہوا تھا۔ تمام ہندو لیڈروں (بشمول گاندھی اور پنڈت جواہر لعل نہرو ) کا 1947ء تک یہی اصرار تھا کہ انڈین نیشنل کانگریس ہندوستان کے تمام لوگوں کی نمائندہ سیاسی جماعت ہے۔ اس سلسلے میں وہ مسلمانوں کی کسی بات کوسننے کو تیار نہ تھے اسی لئے دو قومی نظریہ قبول کیا نہ مسلم ثقافت کو مانا۔آل انڈیا مسلم لیگ کی طاقت سے بھی انکار کرتے رہے ۔ مسلمان اگر الگ ثقافت کی بات کرتے یا علیحدہ قومیت کا ذکر کرتے تو انہیں فرقہ پرست کہہ کر مطعون کیا جاتا ، لیکن جب ہندو سکالر ہندو تہذیب و ثقافت کی بات کرتے تو ہندوستانی ثقافت کا نام دیا جاتا۔ کوشش بسیار کے باوجو د مسلمانان برصغیر کو قائل نہ کر سکے کہ مسلمانوں کی ثقافت الگ ہے، وہ ایک قوم ہیں۔ مسلمانو ں کے نزدیک قوم کے اجزائے ترکیبی انگریز یا ہندو کے نام نہاد قومیت کے اجزائے ترکیبی سے قطعاً مختلف ہیں۔ کہنے کو تو برطانیہ میں مغربی اصطلاح کے مطابق ایک قوم بستی ہے لیکن ذرا قریب سے جھانک کر دیکھیں تو صاف پتہ چلتا ہے کہ انگلستان، ویلز، اسکاٹ لینڈ اور آئر لینڈ کے لوگ جدا جدا مزاج واطوار رکھتے ہیں۔ ذاتی علم کی بنا ء پر کہہ سکتا ہوں کہ انگلینڈ کے لوگ جو خود کوانگلش کہتے ہیں،اپنی بیٹیو ں کی شادی اسکاٹس، ویلش یا آئرش سے کرنا کس قدر ناپسند کرتے ہیں۔ شمالی اور جنوبی آئر لینڈ کی علیحدگی اور پھر شمالی آئر لینڈ میں بے چینی کسی سے پوشیدہ نہیں۔
برصغیر میں مسلمانوںکی ثقافت کو ہمیشہ کے لیے ختم کرنے کا فیصلہ
انگریز کی شدید خواہش تھی کہ برصغیر کے تمام باشندوں کو ایک قوم میں مربوط کیا جائے تاکہ مسلمانوں کی جدا قومی حیثیت ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ختم ہو جائے۔ ہندو اور مسلمان کے درمیان جھگڑا دو تہذیبوں اور ثقافتوں کا جھگڑ ا تھا ۔ انہیں ایک قوم بنا دینے کا مطلب یہ تھا کہ چھوٹی قوم کی ثقافت کو بڑی قوم کی ثقافت میں جذب کر کے برصغیر میں ایک ثقافت وجود میں لائی جائے۔ دوسری جانب سیاسی قوت یا حکومت بھی اسی ثقافت کے نمائندوں کے حوالے کر کے جداگانہ تشخص کو ختم کر دیا جائے ۔کانگریس کی تشکیل کا مقصد یہی تھا لیکن کچھ سادہ لو ح مسلمان ایسے بھی تھے جو نیشنلزم کے نام پر کانگریس کے ہمنوا تھے۔ وہ آخر دم تک نہ سمجھے کہ کانگریس کا نیشنلزم کا نعرہ درحقیقت ہندو نیشنلزم ہے۔
کانگریس کی مسلمان دشمنی
آزادی کا سبب بنی!
آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ کانگریس کے پہلے اجلاس میں کل 72مندوبین نے شرکت کی۔ ان میں سے صرف دو مسلمان تھے۔ ایم آر سیانی اور اے کے دھرمسی۔ ہندوستانی اور برطانوی پریس نے اجلاس میں مسلمانوں کی عدم شرکت کا نوٹس لیا۔ ٹائمز نے 5فروری 1886ء کے ایڈیشن میں لکھا: ’’ایک نامور کونسل ممبر کو اجلاس میں عدم شمولیت سے شہرت ملی۔ ہندوستان کے مسلمان کانگریس میں شامل ہی نہیں کیے گئے ۔ اس کی وجہ معلوم کرنا کچھ مشکل نہیں ہے۔‘‘
سول سروس کے ایک رکن مسٹراے ہیوم کو خیال پیدا ہوا کہ اگر ہندوستان کے مشہور مدبر سال میں ایک بار جمع ہو کر تمدنی حالات پر بحث کریں اور آپس میں دوستانہ تعلقات رکھیں تو ملک کے حق میں یہ بات بھی مفید ہوگی۔ ان کی یہ تجویز بھی تھی کہ جس صوبے میں ایسا جلسہ منعقد ہو، وہاں کے گورنر سے درخواست صدارت کی جائے تاکہ سرکاری وغیر سرکاری مدبرین میں معاشرتی ارتباط پیدا ہو۔ مگر ان کا منشاء یہ نہ تھا کہ ان مباحث میں سیاست کو بھی شامل کیا جائے۔ لیکن جب یہ تجاویز لارڈ ڈفرن کے سامنے پیش ہوئیں تو انہوں نے اختلاف کیا اور اپنی رائے ظاہر کی کہ اس ملک میں کوئی جماعت ایسی نہیں جو انگلستان کی (اپوزیشن پارٹی) فریق مخالف کا کام کرتی ہو۔ اخبارات اگرچہ رعایا کے خیالات ظاہر کرتے ہیں تاہم وہ قابل اعتماد نہیں، چونکہ انگریزوں کو علم نہیں ہوتا کہ ہندوستانی ان کی اور ان کی پالیسی کی نسبت کیا خیال کرتے ہیں۔ لہٰذا اگر ہندوستانی مدبر سال میں ایک مرتبہ جمع ہو کر اس کے نقائص سے مطلع کریں اوران کو دور کرنے کی تدابیر کریں تو یہ امر گورنمنٹ اور رعایا دونوں کے حق میں مفید ہوگا اور ایسے جلسے گورنر کی صدارت میں نہ ہوں ورنہ آزادی کے ساتھ اظہار خیالات میں تامل ہوگا۔ اس رائے سے مسٹر ہیوم نے اتفاق کیا اور انہوں نے کلکتہ و مدراس اور بمبئی کے مدبرین کے سامنے جب یہ رائے پیش کی تو سب متفق ہو گئے اور اس پر اس طرح عمل شروع ہوگیا کہ یہ پارٹی نیشنل کانگریس کے نام سے قائم ہوگی۔
کانگریس کی قوت ہندوئوں کے تعلیم یافتہ طبقے سے تھی اور اسی کے ہاتھوں میں پریس تھا اور وہی ماتحت سول سروس پر قابض تھا۔ اس کو عوام الناس کے ذہنوں پر بھی کنٹرول حاصل ہوگیا۔ ایک طبقہ قانون کی تعلیم حاصل کرنے والوں کا تھا جو آگے چل کر اس قدر اہمیت اختیار کر گئے کہ ان کو ہی کانگریس کا روح رواں تصور کیا جانے لگا ۔ ان افراد کی مسلمانوں کے مقابلے میں تعداد بہت زیادہ تھی۔کانگریسی مطالبے کا لازمی نتیجہ تھا کہ اکثریت کی حکومت ہو اور حکام و ملازم اپنی متعصبانہ ذہنیت سے ہمیشہ مسلمانوں کو کچلتے رہیں۔ اس وقت پراونشل سروس میں 3537 آسامیاں تھیں اور 90فیصد ہندو مامور تھے۔ اگر تناسب یہی رکھا جاتا تو مسلمان پانچ فیصد رہ جاتے اور چھوٹی آسامیاں جو تقریباً پچاس ہزار تھیں ان میں سے تو مسلمان بالکل ہی خارج ہو جاتے۔ ہندوئوں کی حرص ملازمت کے لیے صرف یہ ایک مثال کافی ہوگی کہ اس زمانے میں مغربی و شمال (یوپی) کے کالجوں سے ڈپٹی کلکٹری کی تین آسامیوں کیلئے طلبا کی نامزدگی طلب کی گئی۔ محض اتفاق تھا کہ نامزد طلبہ میں مسلمانو ں کاتناسب زیادہ ہوگیا۔ بس اب تو بنگال کے ہندو پریس نے شور مچادیا اور انگریزوں پر الزام لگایا کہ ’’انہوں نے اس بے انصافی کے اصول کو تفرقہ ڈالو اور حکومت کرو کی طرح برتا ہے ‘‘ حالانکہ صوبہ بنگال میں 1884ء سے1893ء تک مقابلے کے امتحان کے ذریعے بھرتی ہونے والے 66افراد میں ایک بھی مسلمان نہ تھا۔
کانگریسی دور اقتدار میں مسلمانوں
پر مظالم اور فسادات
کانگریس نے اپنے ڈھائی سالہ دور اقتدار (1937-39ء) میں مسلم دشمنی پر مبنی حسب ذیل اقدامات کیے۔
۔1۔انتظامی امور میں مداخلت: کانگریس نے اقتدار سنبھالنے کے بعد سرکاری انتظامیہ کو یہ ہدایت کی کہ وہ تمام انتظامی امور کانگریس کے عہدیداروں اور کارکنوں کے مشورے سے انجام دیں۔ کانگریس کی اس پالیسی سے نظم و نسق تباہ ہوگیا۔ اس بدنظمی اور بد امنی کی زد براہ راست مسلمانوں پر پڑی اور ان کی جان و مال اور آبرو خطرے میں پڑ گئی۔
۔2۔ ہندو مسلم فسادات: کانگریس کی حکومتیں قائم ہوتے ہی ہندوئوں نے فرقہ وارانہ فسادات کو ہوا دی۔ ہندوئوں کی ان خفیہ تنظیمو ں کی سرپرستی کی گئی جن کا مقصد مسلمانوںسے فسادات کرنا اور مسلمانوں کو جانی، مالی اور سماجی نقصان پہنچانا تھا۔یہ خفیہ تنظیمیں عموماً عید الاضحی، محرم، ہولی اور دیوالی وغیرہ کے موقعوں پر ہندو مسلم فساد ات کراتی تھیں۔
۔3۔ بندے ماترم: کانگریس کے دور اقتدار میں بندے ماترم کو قومی ترانہ قرار دیا گیا ۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ ’’بھارت کی دھرتی اپنے فرزندوں کو خیر سگالی کا پیغام بھیج کر ان سے استدعا کرتی ہے کہ مجھے ملیچھوں (ناپاکوں، یہ لفظ مسلمانوں کے لیے مستعمل تھا) کے قدم سے پاک کر و اور اس کے فرزند اس کے سامنے جھک کر یہ عہد کرتے ہیں کہ ہم تجھے ایک نہ ایک دن پاک کر کے رہیں گے‘‘۔ مسلمان طلبہ کو مجبور کیا گیا کہ وہ روزانہ سکولوں میں صبح کے وقت بندے ماترم پڑھیں۔ حضرت قائداعظمؒ نے بندے ماترم کو مسلمانوں کے خلاف اعلان جنگ قرا دیتے ہوئے فرمایا اس سے شرک کی بو آتی ہے۔
۔4۔ ترنگا جھنڈا: جب کانگریسی وزارتیں قائم ہوئیں تو انہوں نے یونین جیک (برطانیہ کا جھنڈا) کے ساتھ ساتھ ترنگا جھنڈا (کانگریس کا تین رنگوں والا جھنڈا) بھی لہرانے کا حکم دیا۔ اس کا مقصد کا یہ تھا کہ اقوام عالم کو یہ معلوم ہو جائے کہ ہندوستان میں صرف دو جماعتیں ہیں۔ ایک انگریز اور دوسری کانگریس۔ حضرت قائداعظمؒ نے اس دھاندلی پر پنڈت نہرو کی توجہ مبذول کرائی تو انہوں نے کہا کہ ترنگے میں مختلف رنگوں کا امتزاج ہے اوریہ مختلف قوموں کے اتحاد کی علامت ہے اور یہ لہراتا ہوا بھی خوبصورت لگتا ہے۔ پنڈت نہرو نے ترنگے پر بنے ہوئے ہندوئوں کے مقدس مذہبی نشان اشوک چکر (اشوک کی گاڑی کا پہیہ ) پر کوئی تبصرہ نہ کیا۔
۔5۔ مسلمانوں سے امتیازی سلوک: ہندو اپنے آپ کو اعلیٰ و ارفع خیال کرتے تھے اور مسلمانوں کو نیچ ذات کے افراد اور ملیچھ یعنی ناپاک سمجھتے تھے ۔ ناپاک سمجھنے کی وجہ سے ان سے ملنا جلنا ، قریب جانا اور قریب بیٹھ کر کھانا کھانا بھی جائز نہیں سمجھتے تھے ۔ہندو مسلمان دکانداروں سے سودا سلف نہیں خریدتے تھے اورنہ ہی ان کے ساتھ کاروبار کرتے تھے۔ ہندو حلوائیوں اور شربت فروشوں نے مسلمانوں کیلئے الگ برتن رکھے ہوئے تھے ،سکولوں میں مسلمان بچوں سے ہندوئوں کے بچوں کو الگ بٹھایا جاتا تھا۔ مختلف کمرشل لائبریریوں میں مسلمانوں کاداخلہ منع تھا۔
۔6۔ سرکاری ملازمتوں میں نا انصافی : کانگریس کے دور اقتدار میں مسلمانوں پر سرکاری ملازمتوں کے درواز ے بند کر دئیے گئے۔ کانگریسی وزارتوں نے تمام محکمے ہندوئوںسے بھر دئیے۔ جب کوئی مسلمان ملازمت کیلئے انٹرویو دینے جاتا تو اس کے ساتھ بڑا ناگوار سلوک کیا جاتا۔
۔7۔ عدلیہ میں نا انصافی: کانگریس کے راج میں عدلیہ میں مسلمانوں کے ساتھ بڑی نا انصافیاں ہونے لگیں۔ پنجاب کا مہا سبھا ذہنیت کا مالک چیف جسٹس سر شادی لعل جابی مسلمانوں کو ہائی کورٹ کا جج نہ بننے دیتا تھا۔ خلیفہ شجاع الدین کا نام کئی بار حکومت کے زیر غور آیا لیکن شادی لعل نے ہر بار ان کے بطور جج تقرری کی مخالفت کی۔ہندو سیشن جج، سول جج اور مجسٹریٹ فیصلے کرتے وقت ہندو مجرموں کو رہا کر دیتے یا ان کی سزا میں تخفیف کر دیتے لیکن مسلمانوں کو معمولی سے جرم پر سخت سزا دیتے۔
۔8۔ ذبیحہ گائو پر پابندی: ہندوئوں کے نزدیک گائے ایک متبرک جانور ہے جسے وہ ماتا کا درجہ دیتے ہیں جبکہ مسلمانوں کے نزدیک گائے بھی دوسرے حلال جانوروں کی طرح ایک جانور ہے اوراس کا گوشت کھانا جائز ہے۔ کانگریس کے راج میں ہندو اکثریتی صوبوں میں ذبیحہ پر پابندی عائد کر دی گئی۔ عید الاضحی کے موقع پر اس کی سختی کے ساتھ ممانعت کر دی گئی۔ اگر کوئی مسلمان گائے ذبح کرتا تو ہندو اسے معہ اہل و عیال قتل کر کے اس کے گھر کو آگ لگا دیتے۔ متعدد مقامات پر گائے ذبح کرنے کا بہانہ بنا کر ہندوئوں نے فرقہ وارانہ فسادات کو ہوا دی۔
۔9۔ تعلیمی نصاب میں تبدیلی: کانگریس کے راج میں نصاب تعلیم از سر نو مرتب کیا گیا۔ ہندو ماہرین تعلیم نے ہندوئوں کے دیو ملائی قصے کتابوں میں بھر دئیے۔ ان نصابی کتابوں میں کسی مسلمان بزرگ کا نام تک موجود نہ تھا۔ خدا کے لیے ایشو ر اور بھگوان جیسے نام استعمال کیے گئے اور یہ کوشش کی گئی کہ کتاب میں کہیں لفظ اللہ کا ذکر نہ آئے۔
۔10۔ نئی نئی تحقیقات: اسی زمانے میں ہندوئوں نے تحقیق کے نام پر بڑے بڑے مضحکہ خیز انکشافات کیے ۔ ان کے خیال میں ارجنٹائن پانچ پانڈو بھائیوں میں سے ایک بھائی ارجن نے آباد کیا تھا۔ شمالی امریکہ کا ملک گوئٹے مالا ، دراصل گوتم مالا ہے وہاں بدھ بھکشو مہاتما بدھ کی مالالے کر گئے تھے۔ ہندوئوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ دیو مالاء قصوں میں جہاں اڑن کھٹولے کا ذکر آتا ہے اس سے مراد ہوائی جہاز ہے۔ مہا بھارت کی جنگ میں جو ’’اگن ہان ‘‘استعمال کے گئے تھے اس سے مراد راکٹ ہیں۔ ایک ہندو سکالر نے اگن ہان کا ترجمہ ایٹم بم کیاتھا۔ ان تک بندیوں کا مطلب مسلمانوں پر برتری ظاہر کرنا اور ہندو دھرم کو ترقی یافتہ بتانا تھا۔
۔11۔ واردھا تعلیمی سکیم:اکتوبر 1973ء میں واردھا (سی پی) میں ایک تعلیمی کانفرنس منعقد ہوئی۔ اس کانفرنس میں گاندھی کے تصورات کے مطابق ابتدائی تعلیم کی ایک سکیم تیار کرنے کے لیے کٹر کانگریسی مسلمان ڈاکٹر ذاکر حسین (بعد میں بھارت کے صدربنے) کی سربراہی میں ایک دس رکنی کمیٹی بنائی گئی۔ دسمبر1937میں کمیٹی نے اپنی رپورٹ پیش کر دی جو واردھا تعلیمی سکیم کے نام سے مشہور ہوئی اس سکیم کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ طلبہ میں ہندوستانی قومیت کو اجاگر کیا جائے تاکہ نصاب میں کسی اور مذہب کی تعلیم شامل نہ ہو۔ گاندھی کا خیال تھا کہ مذہبی تعلیم اختلافات کو جنم دیتی ہے۔ واردھا تعلیمی سکیم میں بھگت کبیر ، اکبر بادشاہ اور شہزادہ دار اشکوہ کے مذہبی خیالات کو بڑی اہمیت دی گئی تھی کیونکہ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے ایک درمیانی راہ نکالی تھی۔ گاندھی اسے ہی ہندوستانی قومیت کا نام دیتے تھے۔ واردھا تعلیمی سکیم کے بارے میں مسلمانوں کا خیال تھا کہ یہ سکیم کبیر پنتھی ، برہمو سماج کے حاملین تو پیدا کر سکتی ہے لیکن کسی مسلمان کے گھر پیدا ہونے والے بچے کو مسلمان نہیں بنا سکتی۔ واردھا سکیم کے پیچھے یہی جذبہ کارفرما تھا۔ افسوس صد گاندھی نے یہ کام بھی ایک مسلمان (ڈاکٹر ذاکر حسین ) سے کرایا۔
دیکھا جو کھا کے تیر کمیں گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہوگئی
۔12۔ ودیا مندر تعلیمی سکیم: سی پی (صوبہ جات وسطی) کے وزیر اعلیٰ شری شکلا نے ودیا مندر تعلیمی سکیم نافذ کی۔ ودیا مندر کے لغوی معنی علم کا مندر ہے۔ ودیا مندرو ں میں زیر تعلیم مسلمان طلبہ ہندوئوں جیسا لباس استعمال کرتے۔ ہندو طلبہ کے ساتھ سرسوتی کے بت کے سامنے ہاتھ جوڑ کر دعا (پرارتھنا) میں شریک ہوتے۔ السلام علیکم کے بجائے نمستے اور جے رام جی کی کرپا۔ اس ناپاک اور شرمناک سکیم کے خلاف مسلمانوں نے ایک احتجاج تحریک کا آغاز کیا جو حکومت کی یقین دہانی پر مارچ 1939ء میں ختم کر دی گئی۔
۔13۔ مورتی پوجا: کانگریس کے دور اقتدار میں تعلیمی اداروں میں گاندھی کی مورتی لگائی گئی اور مسلمان طلبہ کو مجبور کیا گیا کہ وہ اس مورتی کو ’’پرنام‘‘ کیا کریں یعنی ہاتھ جوڑ کر کھڑے ہوں اور اس کا احترام بجا لائیں ، مورتی پوجا صریحاً شرک ہے۔
۔14۔ ہندی زبان کی ترویج: کانگریس کے راج میں ہندی زبان کی ترقی و ترویج کے لیے اسے سرکاری زبان قرار دیا گیا ۔ گویا یہ مسلمانوں کے آٹھ سو سالہ تہذیبی ورثے کو تباہ کرنے اور ماضی سے ان کے روابط کو یکسر منقطع کرنے کی ناپاک کوشش تھی۔
۔15۔ ہندو تہواروں کی سرپرستی: ہندوئوں کے مذہبی تہوار مثلاً دیوالی (چراغاں کی عید) ، دسہرایا رام لیلا، راکھی بندھن، گن پتی، ہولی، مہا شیوراتری اور کمبھ میلہ وغیرہ کی سرکاری سرپرستی کی گئی جبکہ مسلمانوں کے تہواروں اور مقدس راتوں مثلاً عید میلاد النبی ﷺ ، عید الفطر، عید الاضحی، شب معراج (شب اسریٰ)، رمضان المبارک اور شب قدر وغیرہ کو کوئی اہمیت نہ دی گئی۔
۔16۔ اسلامی شعائر میں مداخلت: کانگریس کے راج میں نماز کے اوقات میں مساجد کے سامنے بینڈباجے بجانا اور ہلڑ بازی روز کا معمول بن گیا۔ بعض مقامات پر اذان دینے پر بھی پابندی عائد کر دی گئی۔ ہندوئوں کی طرف سے مسلم اوقاف اورنجی جائیدادوں پر غاصبانہ قبضہ بھی کیا گیا۔
یہ وہ تمام عوامل تھے جو23مارچ 1940ء کو لاہور میں ہونے والے جلسے کی جان تھے ،تمام بحث انہی باتوں پر ہوئی ،حضرت قائد اعظم سمیت تمام اہم رہنمائوں نے اپنے اپنے خطاب میں ان پر تفصیل سے روشنی ڈالی اور بتایا کہ حالات اس نہج پر آ چکے ہیں کہ اب اگر الگ وطن کی بات نہ کی گئی تو ہندوئوں نے مسلمانوں کی اگلی نسل کو ہندو بنانے کی تمام تر سازشیں کر مکمل لی ہیں، اس تمام عمل میں مغرب اور ان کا میڈیا بھی شامل ہے، لہٰذااب یہ تحریک اسلام کے تحفظ کی تحریک میں ڈھل گئی تھی اسی لئے حضرت قائد اعظمؒ کہہ چکے تھے کہ ’’ہندوستان کی آزادی کا راستہ پاکستان سے ہو کر جاتا ہے‘‘۔ یعنی اگر یہ ملک آزاد نہ ہوا تو ہندوستان کو بھی آزادی نصیب نہیں ہو گی۔ وہ جانتے تھے کہ ہندو تو انگریز دور میں بھی مسلمانوں کی نہ صرف جائیدادوں پر قابض ہو چکے ہیں بلکہ انڈیا میں مسلمانوں کو ختم کرنے کیلئے تعلیمی اور سمانجی ڈھانچے پر بھی ان کا ہی کنٹرول ہے، جس کے اندر رہتے ہوئے مسلمان بچہ بھی ہندو بن جائے گا۔اسی لئے 23مارچ 1940ء کو وہ کچھ ہوا جس کا ہندو اور انگریز سوچ بھی نہیں سکتے تھے، یعنی تمام مسلمانوں کی جانب سے جداگانہ وطن کے قیام کا مطالبہ ۔یہ منزل بھی عزم و ہمت سے حاصل کر لی۔ اور یہ بات بھی سچ ہے کہ اگر پاکستان نہ بنتا تو ہندو بھی آزادنہ ہوتا کیونکہ وہ تو انگریزوں کے رنگ میں رنگے جا چکے تھے!
قرارداد پاکستان کی وجہ سے برصغیر کے مسلمانوں کو ایک نئی جدوجہد اور تحریک کا موقع ملا۔ وہ نئے ولولے کے تحت قیام پاکستان کیلئے سینہ سپر ہوگئے۔ منٹو پارک میں ہونے والے اس اجلاس کی تیاری کئی دنوں پہلے شروع ہوچکی تھی اور قائد اعظم کا والہانہ استقبال کیا گیا۔ قائد اعظم نے اگرچہ انگریزی زبان میں تقریر کی لیکن مجمع ہمہ تن گوش رہا اور تقریر کے اہم حصوں پر داد و تحسین بھی دیتا رہا۔
?? ????