حضرت ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ)۔
نام اور کنیت حضرت ابو بکر عام الفیل (وہ سال جس میں ابرہہ نے مکہ پر حملہ کیا) کے اڑھائی برس بعد 572 ءمیں پیدا ہوئے۔ آپ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اڑھائی برس چھوٹے تھے۔ آپ کا نام عبد اللہ تھا اور کنیت ابو بکرؓ، والد کی کنیت ابو قحافہ اور نام عثمان بن عامر تھا۔ بعض کتابوں میں لکھا ہے کہ اسلام لانے سے قبل آپ کا نام عبد الکعبہ تھا، لیکن اسلام قبول کرنے کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کا نام عبد اللہ رکھ دیا۔
قبیلہ
حضرت ابو بکرؓ قبیلہ تیم بن مرہ بن کعب سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کا نسب آٹھویں پشت میں مرہ پر جا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مل جاتا ہے۔ آپ کا پیشہ تجارت تھا۔ آپ بہترین اخلاق کے مالک، رحم دل اور نرم خو تھے۔ عقل مندی ، دور اندیشی اور بلند فکری کے لحاظ سے مکہ کے بہت کم لوگ آپ کے ہم پلہ تھے۔ خلیفہ اول اور مردوں میں سب سے پہلے اسلام لانے والے آپ تھے۔آپؓ ام المومنین حضرت عائشہ ؓ کے والد تھے۔آپ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ ہجرت کی۔ انہوں نے اپنی تمام دولت راہ خدا میں خرچ کر دی۔ اسلام لانے کے بعد آپ کی زیادہ تر زندگی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی صحبت میں گزری۔ جب نبی اکرم کی بیماری نے شدت اختیار کی تو آپ نے حکم دیا کہ ابو بکرؓ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ ایک دن ابو بکرؓ مدینہ سے باہر تشریف لے گئے تھے کہ نماز کا وقت ہو گیا۔ حضرت بلال نے حضرت ابوبکر کو نہ پا کر حضرت عمرؓ سے نماز پڑھانے کو کہا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ ابوبکر کہاں ہیں؟ اللہ اور مسلمان یہ بات پسند کرتے ہیں کہ ابو بکر نماز پڑھائیں۔
زمانہ خلافت صدیقی
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا صدمہ اس قدرگہراتھا کہ اسے خود برداشت کر لینااورآپ کے بعد آپ کی غمگین امت کو درست سمت میں لے کر چلنا ایسا کارنامہ تھا جو حضرت ابو بکر ہی انجام دے سکتے تھے۔ چنانچہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات کے بعد حضرت ابوبکر ؓ مسلمانوں کے پہلے خلیفہ مقرر ہوئے۔ خلافت کا منصب سنبھالتے ہی آپ کو مرتدوں کے فتنے اور اسامہ کے لشکر کی مشکل پیش آئی۔(مرتد اصطلاح میں اس شخص کو کہتے ہیں جو حضور ﷺ کے دور میں ایمان لا کر دوبارہ کافر ہو جائے ۔ اکثرعلما اس کو بھی مرتدکہتے ہیں جو اسلام چھوڑ کر غیر مسلم ہو جائے) نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد عربوں کی بدوی فطرت بیدار ہو گئی۔ وہ مرکز مدینہ سے آزاد ہوکر دوبارہ کفر کی طرف لوٹنے کی تیاریاں کرنے لگے۔ بعض قبائل نے زکوٰة دینے سے انکار کر دیا۔ دوسری طرف اسامہ کے لشکر کا مسئلہ بن آیا۔ اس لشکر کو خود نبی اکرم نے شام کی سرحد پر رومیوں سے جنگ کے لیے تیار کیا تھا۔ لیکن اب بعض صحابہ اس لشکر کی روانگی کے خلاف تھے، جبکہ حضرت ابو بکر صدیق نے فرمایا کہ مجھے اس ذات کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر مجھے یہ یقین ہو کہ جنگل کے درندے مجھے اٹھا کر لے جائیں گے تو بھی میں اسامہ کے اس لشکر کو روانہ ہونے سے نہیں روک سکتا۔اس کے علاوہ آپ کے زمانہ ¿ خلافت میں بہت سے نبوت کا جھوٹا دعویٰ کرنے والے بھی پیدا ہو گئے۔ آپ نے اپنی دور اندیشی اور فہم و فراست سے ان معاملات کو بڑے اچھے طریقے سے حل کیا۔ سیدنا ابو بکر نے اپنی خلافت کی ذمہ داریاں انتہائی تقویٰ و امانت کے ساتھ ادا کیں۔ احتیاط کا یہ عالم تھا کہ ان کی اہلیہ نے حلوہ کھانے کی فرمایش کی تو مسلمانوں کے بیت المال پر بوجھ ڈالنا منظور نہ کیا، بلکہ روزانہ ملنے والے وظیفے میں سے کچھ رقم پس انداز کی تب حلوہ بنایا ۔ آپ کا دور خلافت تقریباً ستائیس ماہ رہا۔آپ کے دور خلافت میں مسلمانوں کومتعدد فتوحات ہوئیں۔
وفات اور مدفن
آپؓ (22جمادی الثانی 13ھ)23اگست 634 میں مدینہ میں فوت ہوئے ۔ اپنی وفات سے پہلے آپ نے مسلمانوں کو ترغیب دی کی وہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خلیفہ تسلیم کر لیں۔ لوگوں نے آپ کی ہدایت پر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خلیفہ تسلیم کر لیا۔ وفات کے وقت آپ کی عمر مبارک 61 سال تھی۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی ٰعنہ کو وفات کے بعد حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے روضہ مبارک میں آپ کے ساتھ سپرد خاک کیا گیا جو کہ ایک بہت بڑی سعادت تھی۔
?? ????