امہات المومنین میں منفرد مقام ۔۔۔۔۔۔۔۔ مولانا محمد طارق نعمان گڑنگی

نام ونسب:عائشہ نام،صدیقہ اور حمیرا لقب ام عبداللہ کنیت ،خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیقؓوالدگرامی ہیں ، والدہ کانام زینب کنیت ام رومان تھی اور قبیلہ غنم بن مالک سے تھیں۔کنیت :عرب میں کنیت شرافت کا نشان ہے چونکہ آپؓکے ہاں کوئی اولاد نہ تھی اس لیے کوئی کنیت بھی نہ تھی۔ ایک دفعہ آنحضرتﷺ سے حسرت کے ساتھ عرض کیا کہ اور عورتوں نے تو اپنی سابق اولادوں کے نام پر کنیت رکھ لی ہے ، میں اپنی کنیت کس کے نام پر رکھوں؟ تو نبی کریمﷺ نے فرمایا :’’ اپنے بھانجے عبداللہ کے نام پر رکھ لو۔ ‘‘ چنانچہ اسی دن سے ام عبداللہ کنیت قرار پائی۔

ولادت: آپؓ بعثت کے 4 برس بعد شوال کے مہینے میں پیداہوئیں اس بنا ء پر آپؓ فرماتی تھیں کہ جب سے میں نے اپنے والدین کو پہچانامسلمان پایا۔ (بخاری ۔ج 1ص252)

حضرت ابوبکرصدیق ؓنے حضرت خولہ بنت حکیم کے ذریعے اپنی لاڈلی بیٹی کاعقد حضور اکرم ؐسے طے کرایا، مہر500درہم قرار پایا یہ نبوت کے 10 ویں سال کا واقعہ ہے،یہ نکا ح ا سلام کی سادگی کی حقیقی تصویرتھا۔

فضائل وکمالات:حضرت عمرو بن عاص ؓنے ایک دفعہ رسول اقدسﷺسے پوچھا :آپﷺ کو دنیا میں سب سے زیادہ محبوب کون ہے؟ تو آپﷺ نے فرمایا : ’’عائشہ‘‘ حضرت عمرو بن عاص ؓ نے پھرعرض کی، مردوں میں کون ہے؟ تو آپﷺ نے فرمایا :’’ اس کا باپ ۔‘‘

رسول اکرمﷺ نے فرمایا :’’مردوں میں بہت کامل گزرے لیکن عورتوں میں سے مریم بنت عمران اور آسیہ زوجہ فرعون کے سوا کوئی کامل نہ ہوئی اور عائشہ کو عورتوں پر اسی طرح فضیلت ہے جس طرح ثرید کو تمام کھانوں پر۔‘‘

حضرت عروہ بن زبیرؓ کا قول ہے’’میں نے حرام وحلال ، علم وشاعری اور طب میں ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓسے بڑھ کر کسی کو نہیں دیکھا۔‘‘ام المومنینؓ فرماتیں کہ ’’ میں فخر نہیں کرتی بلکہ بطور واقعہ کے کہتی ہوں کہ اللہ نے دنیا میں9 باتیں ایسی صرف مجھ کو عطا کی ہیں جو میرے سوا کسی کو نہیں ملیں ۔‘‘

جہاد میں شرکت:غزوات میں غزوہ احداور غزوہ مصطلق میں حضرت عائشہؓ کی شرکت کاپتہ چلتاہے صحیح بخاری میں حضرت انس ؓ سے منقول ہے کہ میں نے حضرت عائشہؓ اور حضرت ام سلیمؓکودیکھاکہ مشک بھر بھر کرلاتی تھیں اورزخمیوں کو پانی پلاتی تھیں۔ (بخاری ج2ص581)

آپؓ کو علمی صداقت اور احادیث روایت کرنے کے حوالے سے دیانت وامانت میں امتیاز حاصل تھا حافظہ بہت قوی تھا جس کی وجہ سے حدیث نبوی کے حوالے سے صحابہ کرام ؓکیلئے بڑا اہم مرجع بن چکی تھیں ۔ آپ ؓحدیث حفظ کرنے اور فتویٰ دینے کے اعتبار سے صحابہ کرام ؓسے بڑھ کر تھیں۔ آپؓنے دو ہزار دو سو دس (2210) احادیث روایت کرنے کی سعادت حاصل کی ۔دور ِنبویؐ کی کوئی خاتون ایسی نہیں جس نے آپؓسے زیادہ احادیث روایت کرنے کی سعادت حاصل کی ہو ۔ آپؓسے174 احادیث ایسی مروی ہیں جو بخاری ومسلم میں ہیں ۔

عِلم وزہد:رسول اللہ ﷺ اور خلفائے راشدینؓ کی وفات کے بعد ایک دن آپؓکی خدمت میں آپؓکے بھانجے حضرت عبداللہ بن زبیرؓ نے1 لاکھ 80 ہزار درہم بطور ہدیہ بھیجے ، آپؓاس دن روزے سے تھیں چنانچہ اس رقم کو لوگوں میں تقسیم کرنا شروع کردیا ، شام ہونے تک ایک درہم بھی باقی نہ رہا ، افطار کے وقت باندی سے فرمایا: ’’میرے افطار کا انتظام کرو۔‘‘ وہ ایک روٹی اور تھوڑا تیل لے کر حاضرہوئی اور کہنے لگی آپؓ نے آج جو کچھ تقسیم کیا ہے اس میں سے ایک درہم کا گوشت خرید لیتیں تو اس سے افطار کر لیتیں ۔ حضرت عائشہ صدیقہؓنے فرمایا’’ ناراض نہ ہو ، اگرتو مجھے یاد دلاتی تو شاید میں ایسا کر لیتی ۔‘‘

حضرت عروہ بن زبیرؓ جو حضرت عائشہ صدیقہؓ کے بھانجے ہیں ، فرماتے ہیں ، میں نے حضرت عائشہ صدیقہ ؓکو 70ہزاردرہم تقسیم کرتے دیکھا ہے جبکہ خود پیوند لگا کپڑا استعمال کرتی تھیں اور نیا نہیں پہنتی تھیں ۔

اسی طرح حضرت قاسم بن محمدؓ جو حضرت عائشہ صدیقہؓکے بھتیجے ہیں ،بیان کرتے ہیں کہ میں روزانہ ام المومنین کی خدمت میں سلام کرنے جاتا تھا ، ایک دن جب پہنچا تو دیکھا کہ وہ نماز میں اس آیت کو باربار پڑھ کر رو رہی ہیں ۔ فمن اللہ علینا ووقانا عذاب السمومِ (سور الطور: 27) ترجمہ : ’’سو اللہ نے ہم پر بڑا حسان کیا اور ہم کو دوزخ کے عذاب سے بچالیا ۔‘‘میں وہاں کھڑے کھڑے تھک گیا اور اپنے کام سے بازار چلا گیا جب دوبارہ واپس آیا تو دیکھا کہ ام المومنین اسی طرح نماز پڑھ رہی ہیں اور اس میں زار و قطار رو رہی ہیں ۔ آپؓ کا یہ علم وزہد، خوف و خشیت اور جودوکرم ہمارے لیے اعلیٰ نمونے ہیں توآئیے ہم بھی ام المومنین کے نقش ِ قدم پر چلتے ہوئے اپنی حقیقی خالق و مالک کو راضی کریں ۔

وفات وتدفین: آپؓ کے سنِ وفات اور عمر کے بارے میں مختلف تاریخیں ملتی ہیں رمضان المبارک57 یا58ھ میں آپ ؓنے اس دنیا سے رحلت فرمائی اس وقت آپؓ کی عمر64سال یا65 سال تھی۔ مہینے میں بھی اختلاف ہے کہ رمضان ہے یا شوال لیکن محقق قول 58ھ 17 رمضان المبارک ہے۔ نماز جنازہ حضرت ابوہریرہ ؓ نے پڑھائی جو کہ اس وقت مروان بن حکم کی طرف سے مدینے کے گورنرتھے۔ اُم المومنین حضرت عائشہؓ نے وصیت فرمائی تھی کہ میراجناز ہ ر ات کے وقت میں اٹھایا جائے اور مجھے جنت البقیع میں دفن کیا جائے چنانچہ ایساہی کیاگیا ۔