حکومت کو کوئی خطرہ نہیں ۔۔۔ خاور گھمن
ملکی سیاست کی سب سے بڑی خاصیت یہ ہے کہ یہاں ہر وقت کوئی نہ کوئی سازش زیربحث رہتی ہے اور ان تمام سازشوں کا موضوع ایک ہی ہوتا ہے ’’حکومت کب ختم ہو رہی ہے، کیسے ختم ہو گی؟‘‘ 2008ء سے 2013 ء تک جب پیپلزپارٹی کی حکومت تھی اس دوران بھی یہی موضوع زیر بحث رہا۔ ہر ہفتے نئی تاریخ دے دی جاتی تھی اور حیران کن طور پر تاریخیں دینے والے ملک کے جانے پہچانے دانشور ہوا کرتے تھے۔ لیکن پھر ہم نے دیکھا پیپلز پارٹی نے اپنے 5 سال پورے کئے۔ البتہ یوسف رضاگیلانی کی جگہ راجہ پرویز اشرف ایک سال کیلئے وزیراعظم ضرور بنے۔ اسکے بعد 2013 ء سے 2018 ء کے دوران بھی سازشی تھیوریوں کے حوالے سے حالات ایک جیسے ہی رہے۔ ہردوسرے ہفتے کوئی نہ کوئی نئی کہانی سامنے آ جاتی تھی۔ بس ’’اب تو حکومت گئی ‘‘۔
اپوزیشن جماعت کے سربراہ کی حیثیت سے عمران خان نے مسلم لیگ( ن) کے دور میں سڑکوں پر دھرنے دیئے ، اس لئے کافی حد تک ان تھیوریوں پرلوگ یقین بھی کرتے رہے۔ اس وقت مسلم لیگ (ن )کو اپنا وزیراعظم تبدیل کرنا پڑا نواز شریف کی جگہ شاہد خاقان عباسی ایک سال اور کچھ ماہ کے عرصے کیلئے وزیراعظم بنے لیکن اسمبلیوں نے اپنی مدت پوری کی ۔ 2018ء میں نئے انتخابات ہوئے اور آخر کار عمران خان وزارت عظمیٰ کے منصب پر پہنچ گئے۔ اگست 2018ء میں جب تحریک انصاف اقتدار میں آئی تب سے ہر ماہ حکومت کے خاتمے کی نئی تاریخ سننے کو مل رہی ہے۔ سب سے پہلی ڈیڈلائن پہلے بجٹ کے موقع پر سامنے آئی۔ ہر طرف سے آوازیں آنا شروع ہو گئیں کی شاید حکومت بجٹ پاس نہ کروا سکے۔ آئین کے مطابق اگر حکومت بجٹ اجلاس میں اکثریت ثابت نہ کر سکے تو اسے عدم اعتماد مانا جاتا ہے لیکن سب نے دیکھا وہ مرحلہ بغیر کسی لیت و لعل کے مکمل ہو گیا۔اس کے بعد مولانا فضل الرحمن جب میدان میں نکلے تو خاص طور پر میڈیا میں ایک طبقے نے کہنا شروع کر دیا کہ ہو نا ہو ،مولانا کسی طاقتور کے اشارے پر نکلے ہیں وہ عمران خان کو ہٹا کر ہی رہیں گے۔ دن رات اس دھرنے کا ذکر ہوتا رہا ۔ ایسا ماحول بنا کر پیش کیا جاتا جیسا کہ اسلام آباد میں صرف اور صرف مولانا موجود ہیں جبکہ وزیر اعظم اور کابینہ کے ارکان گھروں میں بند ہیں اور اپنا سامان باندھنے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔
پھر ایک صبح اسلام آباد کے شہریوں کو پتہ چلا کہ مولانا اپنے مریدین کے ساتھ شہر اقتدار سے جا چکے ہیں۔ البتہ جاتے جاتے یہ ضرور کہہ گئے وہ کسی مناسب وقت پر دوبارہ اسلام آباد آئیں گے۔ اس کے بعد ہم نے پی ڈی ایم کو بنتے دیکھا اور پھر اس کے جلسے جلوس بھی دیکھے۔ اس سارے عرصے کے دوران بعض حلقوں نے کہنا شروع کر دیا ہو نہ ہو ،یہ تحریک حکومت کو لے ڈوبے گی۔ بے شک حکومت نے بھی ملک بھر میں کافی مناسب جلسے کئے۔ پھر ہم سب نے دیکھا کس طرح اس اتحاد میں شامل اپوزیشن رہنما دست و گریباں ہوئے۔ کہنے کو یہ اتحاد قائم ہے لیکن عملی طور پر ختم ہو چکا ہے
پھر سینیٹ انتخابات کے موقع پرجب یوسف رضاگیلانی کامیاب ہوئے تو ایک بار پھرلوگوں نے بڑی شدومد سے کہنا شروع کردیا کہ اب حکومت نہیں بچے گی، حتیٰ کہ لوگوں نے تو چند ہفتوں کی پیشگوئیاں شروع کر دیں۔ اس کے بعد جب گیلانی صاحب چیئرمین سینیٹ کا الیکشن ہارے اور اس کے ساتھ ساتھ وزیراعظم عمران خان نے قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ بھی حاصل کر لیا تو اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ ان مخصوص حلقوں کی امیدوں پر بھی پانی پھر گیا۔ حال ہی میں جب جہانگیر ترین کا کیس چلا اور ان کے 30کے قریب ہم خیال ایم پی ایز سامنے آئے تو ایک بار ہمارے بہت سے ساتھیوں کی رگ پھڑکنا شروع ہوگئی، تحریک انصاف میں بظاہر دھڑے بندی نے انہیں حکومت کے خاتمے کی امید لگا دی۔
ظاہر ہے پنجاب اسمبلی میں عثمان بزدار اور قومی اسمبلی میں وزیراعظم عمران خان بہت ہی سادہ سی اکثریت کے ساتھ موجود ہیں۔ اور جتنے لوگ جہانگیر ترین کے ساتھ سامنے آرہے ہیں اگر وہ حقیقت میں تحریک انصاف کا ساتھ چھوڑ جاتے ہیں تو موجودہ سسٹم دھڑام سے نیچے آگرے گا۔
آج کا سب سے اہم سوال کیا موجودہ حکومت اپنی مدت پوری کر پائے گی؟ کیا عمران خان بحیثیت وزیراعظم 5 سال پورے کریں گے ؟ یہ سوال لے کر جب ہم جڑواں شہر میں موجود باخبر لوگوں کے پاس گئے تو وہاں سے ہمیں دو ٹوک جواب ملا۔ ایک ذریعے کے مطابق ’’اگر کسی کی خواہش یا ارادہ تھا بھی کہ موجودہ سسٹم کو دھچکا لگایا جائے یا پھر عمران خان کو تبدیل کیا جائے تو اس کا وقت ختم ہو چکا ہے‘‘۔ ایک سوال کے جواب میں تحریک انصاف کے سینئر وزیرکا کہنا تھا ’’اگر کسی کا یہ خیال ہے کہ جہانگیر ترین کسی دن عمران خان کی حکومت کو گرانے کی وجہ بنیں گے تو اس سے لاعلم شخص کوئی دوسرا ہو نہیں سکتا‘‘۔
یقینی طور پر ترین صاحب کے کچھ خدشات ہیں جن کو دور کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، اس حوالے سے وزیراعظم کا وژن بڑا واضح ہے، سب کو قانون کا سامنا کرنا پڑے گا، اب بحث و مباحثہ کا مرکز پہلے حمزہ شہباز اور اب شہباز شریف کا عدالتوں سے ضمانت پر رہا ہونا ہے، بہت سارے لوگ ایک ہی بات کرتے سنائی دیتے ہیں کہ کچھ نہ کچھ ہونیوالا ہے، کوئی نہ کوئی ڈیل ہو گئی ہے یا پھر کسی کو کچھ ڈھیل دی جا رہی ہے، اس کا کچھ نہ کچھ مقصد ہے، اس حوالے سے جب چند باخبر حضرات سے بات ہوئی ان کا ماننا ہے شاید نیب کا پراسیکیوشن سیکشن اچھے انداز سے کام نہیں کر پا رہا اس لئے ان رہنمائوں کی ضمانتیں ہو گئی ہیں ۔ جہاں تک شہباز شریف کا برائے علاج کچھ عرصے کے لئے بیرون ملک جانے کا معاملہ ہے اس پر حکومتی عہدیداران کا کہنا ہے وہ نہیں سمجھتے کہ یہ بات حکومت کیخلاف ہے۔
اسلام آباد میں موجود دیگر حلقوں کا بھی خیال ہے اب ساری سیاسی جماعتوں کا فوکس 2023 ء کے انتخابات پر ہے، اب نہ کوئی لانگ مارچ ہوگا نہ کو عدم اعتماد کی تحریک لائے گا۔
?? ????