ماھانہ رسالہ ارمغان ھندوستان سے بصد شکریہ ،
[size=xx-large][align=center]نسیم ہدایت کے جھونکے (انٹرویو)[/align][/size]
سدرہ ذات الفیضین (مثنیٰ)
سدرہ ذات الفیضین ۔ ]مثنیٰ[ : السلام علیکم
فاطمہ : وعلیکم السلام مثنیٰ باجی
س : آپ مدھیہ پر دیش سے کل آنے والی تھیں نا، کل آگئی تھیں یا آج آئیں ؟
ج : نہیں ۔ تو ہم کل ہی گئے تھے، کل نظام الدین میں حضرت کے ایک دوست کا گیسٹ ہاؤس ہے وہیں رک گئے تھے، کل شام حضرت سے ملاقات بھی ہو گئی تھی، حضرت نے مجھے حکم دیا تھا کہ میں آپ کے پاس آ کر ارمغان کے لئے انٹرویو دوں، اور نسیم ہدایت کے جھونکے جو اَب دنیا میں چل رہے ہیں ان میں، میں بھی حضرت یوسف علیہ السلام کے خریداروں میں ایک بڑھیا کی طرح شامل ہوجائوں
س : ماشاء اللہ ! آپ نے حضرت یوسف کا قصہ پورا سنا ہے، یا پڑھا ہے؟
ج : مثنیٰ باجی، محبت کرنے والے سارے بڑے اپنے بچوں کی تربیت اور ان میں بڑا بننے اور ان کی ترقی کے لئے قصے سناتے ہیں، نانی، دادی، ماں اپنے بچوں کو بہادروں، بادشاہوں، بڑے عالموں، اور دنیا کے بڑے بڑے لوگوں کی کہانیاں سناتی ہیں کہ ہمارے بچے میں بڑا بننے کا اور دنیا میں کچھ کرنے شوق پیدا ہو، ہمارے اللہ سے زیادہ کون صحیح سمجھ سکتا ہے کہ بندوں کو کن بڑوں کی طرح بننا چاہئے ہمارے اللہ نے بار بار نبیوں کے قصے اپنے قرآن مجید میں دہرائے ہیں، وہ اسی لئے تو ہیں کہ ہم بار بار پڑھیں اور اس کے ایک ایک حصے اور پہلو پر غور کرکے اس سے سبق حاصل کریں، اور ان کی وہ صفات ہمارے اندر پیدا ہوں، قرآن مجید میں حضرت یوسف علیہ السلام کے قصہ کو تواحسن القصص کہا ہے نا باجی، اس کو سیکڑوں بار پڑھ کر بھی جی نہیں بھرتا ۔
س : قرآن میں تو بڑھیا کا ذکر نہیں ہے؟
ج : یوسف علیہ السلام کی بِکری کا تو ہے، وشروہ بثمن بخس دراہم معدودۃ نہیں پڑھا آپ نے، تفسیروں میں تفصیل ہے نا ۔
س : ماشاء اللہ آپ نے تفسیر پڑھی ہے، اچھا تو آپ یہ بھی بتائیے کہ آپ نے پڑھائی کہاں کی ہے؟
ج : قطر کی ایک آن لائن یونیورسٹی ہے بلال فلپس چوکی میں، اس میں پڑھ رہی ہوں اور قرآن مجید حفظ بھی کررہی ہوں ۲۳؍ پارے الحمد للہ ہوگئے ہیں ۔
س : ماشاء اللہ آپ اس میں کب سے پڑھ رہی ہیں ؟
ج : پانچ سال سے پڑھ رہی ہوں ۔
س : ماشاء اللہ آپ کا تلفظ بالکل بھی نہیں لگ رہاہے کہ آپ کسی ہندو فیملی سے آئی ہیں ۔
ج : میں ہندو فیملی سے آئی کہاں ہوں، ہمارے نبی ﷺ کی خبر کے مطابق ہر بچہ فطرت اسلام پر پیداہو تا ہے، ہم لوگوں کی خاندا ن اور فیملی تو وہ ہوتی ہے جس پر بچہ پیدا ہو تا ہے، ہماری فیملی مسلمان ہوئی نا بہن۔ ہاں اصل میں نے پہلے تجوید پڑھی ہے انٹرنیٹ پر، اس سے مجھے بہت فائدہ ہوا۔
س : یہ بات تو ٹھیک ہے مگر یہ بھی تو ہے کہ اس کے والدین اسے یہودی، عیسائی اور مجوسی بنادیتے ہیں، تو آپ کے والدین نے تو آپ کو ہندو بنایا تھا نا؟
ج : ہاں یہ بات بالکل صحیح ہے، اس طرح تو میں بالکل اسلام مخالف گھرانے، بستی اور صوبہ میں بڑی ہوئی ہوں ۔
س : اس کی تفصیلات بتائیے؟
ج : میں مدھیہ پردیش کے ضلع دھار کے ایک ایسے قصبہ سے تعلق رکھتی ہوں جس میں ایک گھر بھی مسلمان کا نہیں، میرے والد راجپوت ٹھاکربرادری سے تعلق رکھتے ہیں، وہ بی جے پی کے بہت سر گرم کارکن رہے ہیں، اسلام کے خلاف جو بین الاقوامی پروپیگنڈہ چل رہا ہے، اس سے وہ حد درجہ متأثر رہے، ہر مسلمان ان کے خیال میں دہشت گرداور ہندوستان کا دشمن، پاکستانی دہشت گرد تھا، وہ پرائمری اسکول میں سرکاری ٹیچر تھے اور اب ہیڈ ماسٹر ہیں، ان کے تین کلاس کے ساتھیوں کے علاوہ کسی مسلمان سے ان کا ذاتی تعلق بھی نہیں، میرا ایک بڑا بھائی، ایک بڑی بہن اور ایک چھوٹا بھائی ہے۔اصل میں ہمارا گھرانہ رائے پور کی طرف کاہے، ہمارے دادا جی سرکاری ملازمت کی وجہ سے دھار میں آگئے تھے اس لئے میرے ایک چچا اور ایک تاؤ، بس ان کی اولادیں، پورے پریوار میں کل ملاکر( یعنی خونی رشتہ کے) ۱۹؍لوگ ہمارے قصبہ میں ہیں، رائے پور کے رشتہ داروں سے کچھ خاص تعلق بھی نہیں، یعنی آنا جانا نہیں رہا۔
س : آپ کی تعلیم پہلے کہاں ہوئی؟
ج : اپنے قصبہ کے ایک پرائمری اسکول سے جہاں والد صاحب پڑھاتے تھے پانچویں کلاس پاس کی، اس کے بعدہائی اسکول ایک سرسوتی ودّیا پیٹھ سے کیا، وہیں سے انٹر میڈیٹ کیا، بعد میں ایک کمپیوٹر کا کورس بھی کیا، اسلام قبول کرنے کے بعد اسکول کی تعلیم متأثر رہی، مسلسل آزمائشوں سے جوجھتی رہی، اتنا کچھ بھی بس نہ جانے کیسے کرلیا۔
س : اپنے اسلام قبول کرنے کے بارے میں بتائیے؟
ج : میرا اسلام قبول کرنا بس ایک پہیلی ہے، جس کے لئے کسی بوجھ بجھکڑ کی ضرورت پڑے گی، اصل میں پہیلی کیا سچی حقیقت یہ ہے کہ رات کی تاریکی سے صبح کی پو پھاڑنے والا یخرجہم من الظلمات الی النور (وہ اللہ ان کو تاریکیوں سے نور کی طرف نکالتا ہے ) کا فیصلہ ہر جگہ ہر گھر میں سب کی زندگی میں کرتا ہی رہتا ہے، اس کی ایک کرن ہمارے گندے خاندان پر بھی پڑ گئی۔
س : کس طرح، ذرا تفصیلات بتائیے؟
ج : تفصیلات ایسی گھناؤنی ہیں کہ ذکرکرنا بھی مشکل اور سننا بھی آپ کے لئے مشکل، اور لکھنا اور نقل کرنا شاید ناممکن ہوگا۔
س : کچھ تو اندازہ ہے، ذرا اشارہ میں بتائیے؟
ج : اصل میں بات میرے ایک محترم رشتہ دارحقیقی چچا کی شرم ناک حرکت سے شروع ہوئی، جو اَب خود اپنی حرکت پر اس قدر نادم ہیں کہ اس سے زیادہ ممکن نہیں، اوراب وہ نہ صرف مسلمان بلکہ ایک دردمند داعی ہیں، اب اس کا ذکر یقینا اچھا نہیں مگر وہ حرکت ہی اس روشنی کا ذریعہ بنی، اور اس کے بغیر اللہ تعالی کی شان ہدایت کا ذکر ادھورا رہے گا، اس لئے بات تو وہیں سے شروع کرنی پڑے گی، اصل میں میرے ایک چچا بچپن میں غلط صحبت میں رہنے لگے تھے، اور ان کو شراب کی لت لگ گئی تھی، اب شراب پی کر انسان جو کرلیتا ہے اور جہاں تک پہنچ جاتا ہے، وہ اس انسان کا فعل نہیں بلکہ اس نجس شی کا اثر ہوتا ہے، اس لئے تو نشہ کی حالت میں نماز کی اجازت نہیں، اور ہوش و حواس جو کھوجائیں تو آدمی شرعی احکام کا مکلف نہیں رہتا، مارچ ۲۰۰۸ء کی بات ہے، میرے والد اسکول گئے ہوئے تھے، میری والدہ بھائی کو لے کر پڑوس میں چلی گئی تھیں، میں گھر میں اکیلی تھی، میرے چچا نشہ کی حالت میں آگئے، نہ جانے کون سا شیطان ان پر آیا، وہ ہم سے بہت محبت بھی کرتے تھے، کبھی خواب میں بھی ہمیں ان سے ایسی حرلت کی امیدنہیں تھی، بس شاید اللہ کو خاندان کی ہدایت منظور تھی، بس ان پر نشہ کا شیطان پوری طرح سوار ہوگیا، انھوں نے مجھے کمرہ میں بند کرلیا اور میرے ساتھ وہ سب کچھ کرنا چاہا جس کا وہ ہوش و حواس میں خواب بھی نہ سوچ سکتے تھے، میں اپنی عزت بچانے کی کوشش کرتی رہی، اور ایک گھنٹہ چیختی بھی رہی، مگر آواز کمرہ کے باہر نہ جا سکی، میرے سارے کپڑے پھٹ گئے، کئی بار میں ہمت ہار جاتی، کہ اب وہ منھ کالا کرکے چھوڑیں گے، مرتا کیا نہیں کرتا، بس میرا ان پر بس چل گیا اور وہ بے ہوش ہوگئے۔میں پھٹے کپڑے لپیٹ کر باہر بھاگی، باہر ایک بوری جسم کو چھپانے کے لئے لی، دوسرے کمرے میں چادرلی، اپنے تائے کے گھر گئی وہاں جاکر بہن کے کپڑے پہنے، اور میں نے گھراور قصبہ چھوڑنے کی سوچ لی، بس میں بیٹھ کر اندور گئی، راستہ بھر سوچتی رہی، مجھے کیا کرنا چاہئے، کئی بار خیال آیا کہ تھانہ میں جاکر ایف آئی آر درج کراؤں پھر خیال آیا کہ پولیس والے خود درندے ہوتے ہیں وہ مجھے اپنی کسٹڈی میں رکھیں گے، پھر کسی ناری نکیتن میں رکھیں گے، ایک ناری نکیتن کی گندی کہانی میں نے اخبار میں دودن پہلے پڑھی تھی، کبھی سوچتی یہ کرنا چاہئے، کبھی سوچتی وہ کرنا چاہئے، اپنے قصبہ، اپنے خاندان یہاں تک کہ پورے معاشرہ اور دھرم سے نفرت اور کراہیت میرے پورے وجود کو جلائے دے رہی تھی، اندور تک کے سفر میں میرے دماغ اور دل میں مختلف خیالات آتے رہے، اور آخری فیصلہ جس پر مجھے اطمینان ہوا یہ تھا کہ مجھے ایسے گھرانہ، خاندان اور معاشرہ کو چھوڑدینا چاہئے، اس کے لئے مضبوط فیصلہ یہ ہے کہ اسلام قبول کرلینا چاہئے۔
س : اسلام کا خیال آپ کوکیوں آیا ؟
ج : اصل میں میں نے توکہا اللہ کی رحمت تھی، مگر بظاہر گیند بہت زور سے لگی تھی، تو ری ایکشن بھی اسی رفتار سے تھا، بودھ دھرم تو ہندو دھرم کا حصہ ہے، عیسائی ہوکر بھی کچھ ہندو دھرم سے اتنا دور ہونا ممکن نہیں جتنا میرے اندر جذبہ تھا، پوری دنیا میں سارے مذاہب کی ضد بس اسلام میں تھی، تو انفعال میں اس وقت میرے ری ایکشن کے جذبات کی تسکین کامل معاشرہ کو جھلا دینے والا فیصلہ اسلام ہی ہوسکتا تھا، اس لئے میں نے جذبات میں یہ فیصلہ لیا اور فیصلہ لے کر جمے رہنا میرے اللہ نے میری فطرت کا خاص حصہ بنایا ہے، اس کے لئے مجھے کسی ایسے مسلمان کی تلاش ہوئی جو مجھے مسلمان کرسکے، اندور بس اڈہ پر اتر کر میں نے جامع مسجد کا پتہ معلوم کیا، لوگوں نے کہا یہاں بہت سی مسجدیں ہیں، ایک مسلمان نے مجھے آزاد نگر مدرسہ کا پتہ بتایا، میں وہاں گئی، مولانا صاحب ملے تو انھوں نے کہا مسلمان ہونے کے لئے آپ کو بھوپال قاضی کے پاس جانا پڑے گا۔
س : آپ کے پاس خرچ کہاں سے آیا؟
ج : یہ خود اللہ کی طرف سے ایک فیصلہ ہے، میں گھر سے نکل رہی تھی تو میں نے دروازے کے باہر دیکھا کہ ایک پرس پڑاہے، میں نے دیکھا کہ وہ میری ماں کا پرس ہے، جو ان سے جاتے وقت گر گیا ہوگا، اس میں 5600/=روپئے تھے، جو میرے اللہ نے میرے اسلام کے انتظام کے لئے گروائے تھے۔
س : تو پھر آپ بھوپال گئیں ؟
ج : ہاں میں بھوپال گئی، اور وہاں قاضی صاحب کے پا س گئی، وہ بہت ہنسے، مجھے بہت دکھ بھی ہوا، انھوں نے مجھ سے مسلمان ہونے کی وجہ معلوم کی تومیں نے بتایا، مجھے اپنے خاندان اور معاشرہ سے نفرت ہو گئی ہے، انھوں نے کہا اس کے لئے مسلمان ہونا ٹھیک نہیں ہے، اسلام کو پڑھئے، آپ ابھی نابالغ ہیں بالغ ہوکر مسلمان ہونا ہوگا، میں نے کہامیرا دماغ، میرا دل بالغ ہے، آپ مجھے مسلمان کرلیجئے، مگرانھوں نے منع کردیا، میں تاج المساجد بھی گئی، بہت سے مسلمانوں اور مولانا لوگوں کے پاس گئی، لیکن کوئی بھی تیار نہیں ہوا، میراخیال تھاکہ میں دھن کی پکی ہوں، مایوس ہوکر کئی بار خیال آیا میں گھر واپس چلی جاؤں مگر میری انا مجھے روک دیتی، میری انا مجھ سے کہتی کہ فیصلہ لے کر واپس ہونا بہت بڑی ہار ہوگی، میرا نام لکشمی بائی میرے والد نے رکھا تھا۔
س : آپ بھوپال میں کہاں رہیں ؟
ج : شاہ جہاں آباد مرکزمیں گئی وہاں بھی مولانا نے منع کردیا، رات کا وقت تھا وہاں پر ایک بے چاری پریشان حال بیوہ ایک جھونپڑی میں رہتی تھی، انھوں نے مجھے اپنے گھر رکھا مجھ پر ترس کھایا، میں بھوپال میں دو مہینے ان کے گھررہی۔
س : آپ کے گھروالوں نے آپ کوتلاش نہیں کیا؟
ج : بہت تلاش کیا، پہلے اسلام قبول کرنے کی بات سن لیجئے
س : سنائیے، پہلے آپ وہ بات پوری کرلیجئے ؟
ج : رحمت آپا جن کے یہاں میں رہ رہی تھی، وہ مجھے لے کر ایک آپا جان کے یہاں گئیں جو جمعرات کو عورتوں کا اجتماع کرتی تھیں، انھوں نے جاکر میرے بارے میں بتایاوہ بھی ہنسنے لگیں، میں پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی تو وہ مجھ سے لپٹ گئیں، مجھے گود میں لے کر بہت پیار کیا، کہامیری بچی کیوں رورہی ہے، میں تجھے ضرورمسلمان بناؤں گی، پھر انھوں نے مجھے روتے روتے کلمہ پڑھوادیا، پھر مجھ سے معلوم کیا تم اپنا نام بھی بدلوگی؟ کیا نام رکھوں ؟ میں نے کہا، حضرت محمد ﷺ کی بیٹیوں میں سے کوئی نام رکھ دو، تو انھوں نے میرا نام فاطمہ رکھا۔انھوں نے کل پھر آنے کے لئے کہا، اور کہا آج مجھے ایک شادی میں جانا ہے، کل میں تمھیں کتابیں منگاکر دوں گی، اگلے روز دوپہرکو میں ان کے یہاں رحمت آپا کو لے کر گئی، تو انھوں نے نوکتابیں مجھے دیں : آپ کی امانت آپ کی سیوا میں، مرنے کے بعدکیاہوگا؟، بہشتی زیور، رہبر انسانیتﷺ، نسیم ہدایت کے جھونکے تین حصے، اسلام کے پیغمبر، اور اسلام کیا ہے؟ یہ میرے لئے مکمل نصاب تھا، ان کتابوں کو میں نے رحمت آپا کے یہاں رہ کر پڑھا، ان کو پڑھ کر میرے جذبات کا رخ بدل گیا، میں اپنے چچا کو بالکل بے قصورسوچ کراللہ کی طرف سے ان کو ہدایت کا ذریعہ سمجھ رہی تھی، مجھے گھر پریوار کو چھوڑنے کے بجائے ان کو دوزخ سے بچانے کی فکر سوار ہو گئی تھی، مجھے اپنے گھروالوں کی فکرہوئی، مجھے اندازہ تھا کہ میرے گھروالوں میں سے کسی کو میرے گھر سے نکلنے کی وجہ معلوم نہیں ہو گی، نہ جانے کیا کیا افواہیں میرے بارے میں اڑ رہی ہوں گی، گھروالے کسی لڑکے کے ساتھ جانے اور نہ جانے کیا کیا سوچ رہے ہوں گے، مگر مرنے کے بعد کی دوزخ سے بچانے کے لئے یہ الزامات اور اس پر گھروالوں کا عتاب سب چھوٹی چیزیں تھیں، نسیم ہدایت کے جھونکوں میں ’’حرا‘‘ جو تقریبا میری عمر کی تھی، نے اپنی جان دے کر اللہ کی محبت میں ایمان کے لئے جل کر پورے گھرانہ کے لئے ایمان اور جنت کا راستہ کھولا، مجھے بھی قربانی دینی چاہئے، رحمت آپا مجھے منع کرتی رہیں اور اپنے بھتیجہ سے شادی کرکے اپنے بھائی کے گھر میں رکھنے کے لئے خوشامد کرتی رہیں، مگر میں نے فیصلہ کرلیا اور رحمت آپانے بھی مجھے اجازت دے دی، میں واپس گھر پہنچی۔
س : گھر میں کیا خبریں تھیں ؟
ج : میرے والد گھر آئے تو والدہ تو نہیں آئی تھیں، میرے چچا تین گھنٹے تک ننگے بے ہوش پڑے رہے، ان کی غلط صحبت اور شراب کی لت سے ان سے سب بد ظن تھے، مجھے گھرمیں نہیں پایا تومیری تلاش ہوئی، دوتین روز سب جگہ تلاش کے بعد میں نہیں ملی تو تھانہ میں رپورٹ درج کرائی، میرے اسکول میں تحقیق کی گئی کہ کسی لڑکے سے کوئی تعلق تو نہیں، مگر یہ بھی خیال تھا کہ چاچا نے کوئی حرکت کی ہو، میں گھر پہنچی تو پہلے تو گھروالے بہت غصہ تھے، مجھ سے وجہ معلوم کرتے تھے، میرے سامان کو ٹٹولا، تلاشی لی گئی تو اسلام پر کتابیں تھیں، سب برہم ہوگئے، اس لئے اپنی ماں کو چاچا کی حرکت بتانی پڑی، اور ساتھ ہی ساتھ میں نے اپنے اسلام قبول کرنے کی کہانی بھی بتائی، سب بھایئوں نے چاچا کو بلاکر بری طرح مارا، میں ان کو منع کرتی رہی کہ ان کی خطا نہیں ہے، میرے مالک نے مجھے سچی راہ دکھانے کے لئے ان پر شیطان چڑھاکر مجھے سچ کی راہ دکھائی، اس پر وہ مجھ پر غصہ ہوگئے اور مجھے بھی مارا، میں پٹتی رہی اور حرا کی نقل میں ان لوگوں سے کہتی رہی تم مجھے مار رہے ہو، مگر مرنے کے بعد ایک بڑی مار کا سامنا ہونے والا ہے، اس سے صرف اسلام ہی بچا سکتا ہے، میرا بھائی بڑے غصہ میں آیا اس نے لوہے کی کرسی اٹھاکر میرے سر میں ماردی، جس سے میرا سر پھٹ گیا اور خون بہنے لگا، میرے تایا نے لوگوں کوروکا کہ یہ مر جائے گی، ابھی کچی عمر ہے سمجھانے کی کوشش کرو، پیار سے سمجھاؤ، ایک ایک کرکے مجھے گھروالے سمجھاتے رہے، ، میری ایک بہن جو مجھ سے زیادہ تعلق رکھتی تھی، میری ماں نے اسے بلوایا کہ وہ اب مجھے سمجھائے مگر اسلام اب میرے لئے ایسی چیز نہیں تھا کہ جسے چھوڑا جا سکے، میرے لئے حرا کا نمونہ تھا کہ خوشی میں اللہ کی محبت میں جل کر جان دے دی، یا پیارے نبی کی روشن زندگی کہ سب کچھ سہتے رہے اور قولو لا الہ الا اللہ کی خیر خواہی میں لگے رہے۔روز ایک نیا دن میرے ایمان کو بڑھانے کے لئے آتا، اور پھر مجھے اس مخالفت اور دشمنی میں اللہ کا نور نظر آتا، دو سال تک ہر دن کی ایک داستان ہے، جس کے لئے ایک کتاب چاہئے، گھر والوں کے ساتھ کبھی کبھی پڑوسی بھی شامل ہوجاتے، میرے ایک ماما مجھے رائے پور اپنے گھر لے گئے، وہاں بہت سے سیانوں سے ٹونے ٹوٹکے کروائے، جس کا اثر میرے دماغ پر ہوا، مجھے بھول کا مرض ہوگیا، مگر میں سورہ علق اور سورہ ناس پڑھتی رہی، اللہ نے اس کا اثر زائل کردیا، وہاں میرے ماما کی لڑکی نے اسلام قبول کرلیا، بھائی بھی کتاب پڑھنے لگاتو ماما نے مجھے واپس بھیج دیا کہ یہ تو سارے گھروالوں کو ادھرم کردے گی، گھر پر آکر پھر مار پیٹ، ایک بار مجھے زہر بھی دیا گیا، ایک بار میرے ہاتھ کی دونوں ہڈیاں توڑ دیں، دو روز تک ہاتھ ٹوٹا رہا، کوئی پٹی کرانے کو بھی تیار نہیں، میری بوا کو معلوم ہوا وہ آئیں اور پلاستر کر وا لائیں، ایک دفعہ میرے بھائی نے اس زور سے سریہ مارا کہ میری پنڈلی کی ہڈی میں فریکچر آگیا، مگر میری ہر چوٹ میرے اللہ بہت جلدی ٹھیک کردیتے، میرے اللہ کاکرم ہوا کہ جب بھی مجھے مارا جاتا، ستایا جاتا مجھے اچھے خواب دکھتے، ، کبھی جنت دکھائی جاتی کبھی کسی صحابی کی زیارت ہوتی، کبھی پیارے نبی ﷺ کی بھی زیارت ہوئی، گھر والے میری ثابت قدمی جسے وہ ضد اور ہٹ دھرمی سمجھتے تھے، سے عاجز آگئے۔
س : آپ کے گھر والے سب اسلام میں آگئے، وہ کس طرح ہوا، ذرا بتائیے؟
ج : ہاں بتارہی ہوں، میں ان کی ساری مخالفت کو فانہم لا یعلمون سمجھتی تھی، کیونکہ سیرت پاک کے روشن خطوط میرے ساتھ تھے، اس لئے میں راتوں کو اپنے اللہ کے سامنے بہت روتی تھی اور گھروالوں کے لئے ہدایت کی دعا کرتی تھی، کبھی کبھی اس کیفیت کے ساتھ دعا کرتی کہ میرا گمان ہو تا کہ آج اگر جنت کو زمین پر اتروانے کی ضد کروں گی تو میرے اللہ اتار دیں گے، دعا کے بعد میراسارا دکھ دور سا ہوجاتا، اللہ کے حضور اس بھکارن کی صدا کو قبولیت سے نوازا گیا، ایک دن میری ماں میرے پاس ایک بجے رات تک روتی رہی، اور بولی کہ لکشمی تو نے گھر کو کیسا نرک بنا رکھا ہے، تو واپس نہ آتی تو اس سے اچھا تھا، میں نے کہامیں پھر گھر سے جانے کو تیار ہوں، بس میری آپ سے ایک شرط ہے کہ دو کتابیں آپ کو دیتی ہوں آپ پڑھ لیجئے، اس کے بعد آپ اگر کہیں گی میں گھر سے چلی جاؤں گی، وہ اس پر راضی ہوگئیں، میں نے’ آپ کی امانت ‘اور’ نسیم ہدایت کے جھونکے‘ ان کو دی، وہ بولیں اب تو میرا دماغ تھک گیا ہے، اچھا کل پڑھوں گی، اگلے روز انھوں نے آپ کی امانت پڑھنا شروع کی، میں غور سے ان کے چہرہ کو دیکھتی رہی، ان کے چہرہ پر ان کے دل سے کفر و شرک کے چھٹنے کا اثر دیکھتی رہی، اور اس امید پر خوش ہوتی رہی، پڑھ کر اچانک وہ کتاب بند کرکے بولیں، بس لکشمی میں نہیں پڑھتی توتو مجھے مسلمان بنا دے گی، میں نے کہا آپ ایک راجپوت گھرانہ کی استری(عورت)ہیں آپ نے زبان دی ہے، یہ دونوں کتابیں آپ کو پڑھنا پڑیں گی، میں نے ان کے پاؤں پکڑ لئے، میری ماں میری بات مانو، ورنہ موت کے بعد بہت پچھتانا پڑے گا، میری خوشامد سے وہ پڑھنے لگیں، پوری کتاب پڑھ کر وہ بولیں لکشمی بات تو بالکل سچی ہے، مگر تیری طرح ہمت کون کرسکتا ہے، سب تو لکشمی بائی نہیں ہوسکتیں، میں نے کہااس کے لئے آپ کو دوسری کتاب پڑھنی پڑے گی۔نسیم ہدایت کے جھونکے پڑھنا شروع کیا، میں نے عبد اللہ اہیر کا انٹرویو نکال کر دیا، تھوڑی دیر میں میری خوشی کی انتہا نہیں رہی کہ ان کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے اس کے بعد میں نے دوسری کتاب سے زینب چوہان اور عائشہ کے انٹرویو پڑھوائے، بس ان کے دل کی دنیا بدل گئی، رات کو وہ دیر تک مجھ سے باتیں کرتی رہیں، اور میری ضد اور خوشامد پر کہ ماں جب آپ کی سمجھ میں آگیا ہے تو اب دیر کرنا ہرگز ٹھیک نہیں ہے، اب تک تو آپ اللہ کے یہاں یہ کہہ سکتی تھیں کہ مجھے معلوم نہ تھا، اب تو بات صاف ہوچکی ہے، نہ جانے صبح کو آنکھ کھلے گی کہ نہیں، ایک بجے رات کو میں نے ان کو کلمہ پڑھوایا، اب تو بیان نہیں کرسکتی کہ میری کیسی عید ہوگئی تھی، اب میرے لئے گھرمیں رہنا بالکل آسان ہوگیا تھا، ماں کے اسلام قبول کرنے کے بعدمجھے اپنی ساری دعاؤں کے قبول ہونے کا یقین سا ہوگیا، میں نے دعا کے صدقہ کے طور پر اپنے والد کے اسلام کے قبول کرنے کی خوشی میں چالیس روزے رکھنے کی نذر مانی، اور دعا کا اہتمام کیا، ایک رات وہ بھی مجھ سے کہنے لگے، لکشمی شروع میں تو تو اپنے چاچا کی وجہ سے مسلمان ہوئی، مگر اتنی مشکل کے بعد اب تجھے اسلام پر کون سی چیز ہٹ دھرم بنارہی ہے، میں نے ان سے بھی آپ کی امانت آپ کی سیوا میں اور’ ہمیں ہدایت کیسے ملی؟‘ پڑھنے کو کہا، وہ لے کر کھول کر دیکھنے لگے، دو شبد پڑھے تو وہ پڑھنے لگے، رات کو سوئے تو انھوں نے اپنے کوداڑھی اورٹوپی میں نماز پڑھتے دیکھا اور جب وہ مسجد میں گئے تو ان کو ایسا لگا کہ آسمان سے ٹھنڈی پھوار جس میں نور بھی ہے، ان کے اوپر برس رہا ہے، انھوں نے اس میں عجیب سکون دیکھا اور مجھ سے لے کر’ اسلام کیا ہے؟‘ کتاب پڑھی، مرنے کے بعد کیاہوگا؟رہبرانسانیت، اسلام کے پیغمبر پڑھیں، اور نسیم ہدایت کے جھونکے تینوں حصے پڑھے، پھر مجھ سے کہا کہ مولانا کلیم صاحب سے مجھے کسی طرح ملوا دے، بہت کوشش کے باوجود رابطہ نہیں ہوسکا، اس کے بعد انھوں نے ایک اور خواب دیکھا، جس کے بعد وہ خود بھی مسلمان ہونے کو کہنے لگے، اللہ کا شکر ہے کہ میں نے ان کو کلمہ پڑھوایا، بڑے بھائی ہم لوگوں کے فیصلہ سے ناراض رہے اور چھ مہینے کے لئے گھر چھوڑ کر چلے گئے، وہ گوالیر رہے، وہاں بہت پریشان رہے، ایک مسلمان لڑکے نے ان کے ساتھ بہت سلوک کیا، وہ گھر آئے اور دو تین سمجھانے کے بعد مسلمان ہوگئے، اور چھوٹا بھائی اور بہن تو والد صاحب کے ایک دو دن کے بعد ہی مسلمان ہوگئے تھے، اب چاچا پر کوشش شروع کی اور اللہ کا شکر ہے کہ وہ بھی ۲۰۰۸ء کے بھوپال اجتماع سے چالیس دن لگا چکے ہیں، میرے اللہ کا کرم ہے میرے خونی رشتہ کا کوئی قریبی عزیز ہمارے گھر انہ میں کافر و مشرک نہیں رہا۔
س : ماشاء اللہ آپ واقعی بہت خوش قسمت ہیں، ارمغان میں بہت سے لوگوں کے انٹرویو شائع ہوتے ہیں مگر جس قدر آپ کے ساتھ اللہ نے کرم فرمایا، یہ بالکل انوکھا ہے۔
ج : الحمد للہ میں اس اللہ کی رحمت کے قربان، کہ میرے چاچا پر شہوت اور درندگی کا شیطان سوار کراکے اللہ نے مجھے اور چاچا اور سارے خاندان کو دعوت دلواکر ہدایت سے نوازا، حضرت نے نسیم ہدایت کے جھونکے کے شروع میں واقعی کیسی سچی بات لکھی ہے : ہدایت کی کیسی ہوا اللہ نے چلائی ہے۔
س : ابی سے آپ کا رابطہ کب سے ہے؟
ج : پہلی ملاقات کل ہوئی، فون پرالبتہ ایک مہینہ پہلے ملاقات ہوئی تھی، ایک بار ہم بھوپال آئے تھے معلوم ہوا تھا کہ آنے والے ہیں، مگر حضرت کا پروگرام ملتوی ہوگیا تھا، مایوس ہوکر واپس گئے تھے، ہاں دل سے تعلق تو اپریل ۲۰۰۸ء سے ہے جب سے کتابیں پڑھی ہیں، مگر ملاقات پہلی بار کل ہوئی ہے۔
س : ماشاء اللہ بہت خوب آپ کی داستان ہے، اللہ تعالی آپ کی استقامت کا کوئی حصہ ہمیں بھی عطا فرمائیں آپ ہمارے لئے ضرور دعا کریں ۔
ج : میں وظیفہ سمجھ کر بلا ناغہ آپ کے خاندان اور نسلوں کے لئے دعا کر تی ہوں، اور مثنیٰ باجی شاید ہی کوئی بدقسمت مسلمان ہوگا جو آپ کے گھرانہ کو جانتا ہو اور آپ کے لئے دعا نہ کرتا ہو۔
س : جزاکم اللہ خیرا، ارمغان کے قارئین کو کوئی پیغام دیں گی ؟آپ کی باتیں تو ایسی ہیں کہ سنتے ہی جائیں، یہ جی چاہتا ہے۔ مگر آپ بھی تھک جائیں گی اس لئے باقی پھر کسی وقت بات ہوگی ۔
ج : جی بہتر ہے، ہمیں جانا بھی ہے گاڑی میں، بس میری درخواست تو ارمغان کے قارئین سے یہ ہی ہے کہ اگر آدمی اپنے نبی ﷺ کے اسوہ سے روشنی لیتے ہوئے دھن سوار کرلے کہ دوزخ سے انسانیت کو بچانا ہے تو اس وقت ہدایت کا فیصلہ اللہ کی طرف سے تھوک میں ہورہا ہے، نہ جانے کتنے خالد بن ولید، سیف من سیوف اللہ، اور کتنی لکشمی بائی فاطمہ اور رقیہ بن سکتی ہیں ۔
س : واقعی بالکل سچی بات ہے، اللہ مبارک فرمائے، واقعی یہ سوچ خودبہت مبارک ہے۔ شکریہ بہن فاطمہ بہت شکریہ
ج : شکریہ تو آپ کا بہن مثنیٰ، میرے لئے کس قدر خوشی کی بات ہے کہ نسیم ہدایت کے جھونکے کی ایک کڑی آپ نے مجھ گندی کو بنانے کا شرف بخشا۔
س : اچھا السلام علیکم ورحمۃ اللہ
ج : وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ۔ استودعکم اﷲ دینکم وخواتیم اعمالکم
?? ????