اسلام میں تعلیمِ نسواں اور موجودہ مخلوط نظامِ تعلیم
اسلام میں علم کی اہمیت
بلاشبہ علم شرافت وکرامت اور دارین کی سعادت سے بہرہ مند ہونے کا بہترین ذریعہ ہے، انسان کودیگر بے شمار مخلوقات میں ممتاز کرنے کی کلید اور ربّ الارباب کی طرف سے عطا کردہ خلقی اور فطری برتری میں چار چاند لگانے کا اہم سبب ہے؛ بلکہ واقعہ یہ ہے کہ مقصدِ تخلیقِ انسانی تک رسائی علم ہی کے ذریعے ممکن ہے، علم ہی کی بہ دولت انسانوں نے سنگلاخ وادیوں، چٹیل میدانوں اور زمینوں کو مَرغ زاری عطا کی ہے، سمندروں اور زمینوں کی تہوں سے لاتعداد معدنیات کے بے انتہا ذخائر نکالے ہیں اور آسمان کی بلندیوں اور وسعتوں کو چیرکر تحقیق واکتشاف کے نت نئے پرچم لہرائے ہیں؛ بلکہ مختصر تعبیر میں کہا جاسکتا ہے کہ دنیا میں رونما ہونے والے تمام محیرالعقول کارنامے علم ہی کے بے پایاں احسان ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ اسلام نے اپنے ظہور کے اولِ دن سے ہی پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم پر ”اقرأ“ کے خدائی حکم کے القاء کے ذریعہ جہالت کی گھٹا ٹوپ تاریکیوں میں علم کی عظمت واہمیت کو جاگزیں کیا اور ”قرآنِ مقدس“ میں بار بار عالم وجاہل کے درمیان فرق کے بیان اور جگہ جگہ حصولِ علم کی ترغیب کے ذریعے اس کی قدر ومنزلت کو بڑھایا؛ چنانچہ قرآنِ کریم میں علم کا ذکر اسّی بار اور علم سے مشتق شدہ الفاظ کا ذکر سیکڑوں دفعہ آیا ہے، اسی طرح عقل کی جگہ ”الباب“ (جمع لب) کا تذکرہ سولہ دفعہ اور ”عقل“ سے مشتق الفاظ اٹھارہ جگہ اور ”فقہ“ سے نکلنے والے الفاظ اکیس مرتبہ مذکور ہوئے ہیں، لفظ ”حکمت“ کا ذکر بیس دفعہ اور ”برہان“ کا تذکرہ سات دفعہ ہوا ہے، غور وفکر سے متعلق صیغے مثلاً: ”دیکھو“ ”غور کرو“ وغیرہ، یہ سب ان پر مستزاد ہیں۔
قرآن کریم کے بعداسلام میں سب سے مستند،معتبر اور معتمد علیہ لٹریچر (Literature) احادیثِ نبویہ کا وہ عظیم الشان ذخیرہ ہے، جسے امت کے باکمال جیالوں نے اپنے اپنے عہد میں انتہائی دقتِ نظری، دیدہ ریزی اور جگر کاوی کے ساتھ اکٹھا کرنے کا ناقابلِ فراموش کارنامہ انجام دیا ہے، جب ہم اس عظیم الشان ذخیرے کا مطالعہ کرتے ہیں، تو ہمیں قدم قدم پر نبوی صلی اللہ علیہ وسلم زبانِ مقدس علم کی فضیلت، حاملینِ علم فضیلت اور اس کے حصول کی تحریض وترغیب میں سرگرم نظر آتی ہے؛ چنانچہ تمام کتبِ حدیث میں علم سے متعلق احادیث کو علیحدہ ابواب میں بیان کیا گیا ہے۔
مشتے نمونہ از خروارے
چنانچہ امام بخاری کی صحیح میں ابوابِ وحی و ایمان کے بعد ”کتاب العلم“ کے عنوان کے تحت ابواب میں حافظ الدنیا ابن حجر عسقلانی کے بہ قول چھیاسی مرفوع حدیثیں (مکررات کو وضع کرکے) اور بائیس آثارِ صحابہ وتابعین ہیں، اسی طرح صحاحِ ستہ کی دیگر کتب اور ”موطا مالک“ میں بھی علم کا علیحدہ اور مستقل باب ہے ”مسند امام احمد بن حنبل“ کی ترتیب سے متعلق کتاب الفتح الربانی“ میں علم سے متعلق اکاسی احادیث ہیں، حافظ نورالدین ہیثمی کی ”مجمع الزوائد“ میں علم کے موضوع پر احادیث بیاسی صفحات میں پھیلی ہوئی ہیں، ”مستدرک حاکم“ میں علم سے متعلق حدیثیں چوالیس صفحات میں ہیں، مشہور ناقد حدیث اور جلیل القدر محدث حافظ منذری کی ”الترغیب والترہیب“ میں علم سے متعلق چودہ احادیث ہیں اور علامہ محمد بن سلیمان کی ”جمع الفوائد“ میں صرف علم کے حوالے سے ایک سو چون حدیثیں بیان کی گئی ہیں۔
اسلام میں خواتین کی تعلیم کی اہمیت
یہ بھی حقیقت ہے کہ کسی بھی قوم کو مجموعی طور پر دین سے روشناس کرانے، تہذیب وثقافت سے بہرہ ور کرنے اور خصائل فاضلہ وشمائلِ جمیلہ سے مزین کرنے میں اس قوم کی خواتین کا اہم؛ بلکہ مرکزی اور اساسی کردار ہوتا ہے اور قوم کے نونہالوں کی صحیح اٹھان اور صالح نشوونما میں ان کی ماؤں کا ہم رول ہوتا ہے؛ اسی وجہ سے کہا گیا ہے کہ ماں کی گود بچے کا اولین مدرسہ ہے؛ اس لیے شروع ہی سے اسلام نے جس طرح مردوں کے لیے تعلیم کی تمام تر راہیں وا رکھی ہیں ان کو ہر قسم کے مفید علم کے حصول کی نہ صرف آزادی دی ہے؛ بلکہ اس پر ان کی حوصلہ افزائی بھی کی ہے، جس کے نتیجے میں قرنِ اول سے لے کر آج تک ایک سے بڑھ کر ایک کج کلاہِ علم وفن اور تاجورِ فکر وتحقیق پیدا ہوتے رہے اور زمانہ ان کے علومِ بے پناہ کی ضیاپاشیوں سے مستنیر و مستفیض ہوتا رہا، بالکل اسی طرح اس دین حنیف نے خواتین کو بھی تمدنی، معاشرتی اور ملکی حقوق کے بہ تمام وکمال عطا کرنے کے ساتھ ساتھ تعلیمی حقوق بھی اس کی صنف کا لحاظ کرتے ہوئے مکمل طور پر دیے؛ چنانچہ ہر دور میں مردوں کے شانہ بہ شانہ دخترانِ اسلام میں ایسی باکمال خواتین بھی جنم لیتی رہیں، جنھوں نے اطاعت گزار بیٹی، وفاشعار بیوی اور سراپا شفقت بہن کا کردار نبھانے کے ساتھ ساتھ دنیا میں اپنے علم وفضل کا ڈنکا بجایا اور ان کے دم سے تحقیق و تدقیق کے لاتعداد خرمن آباد ہوئے۔
خواتین کی تعلیم سے متعلق روایات
(۱) بنی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ”ثَلاَثَةْ لَہُمْ أَجْرَانِ: رَجُلٌ مِنْ أہْلِ الکِتَابِ آمَنَ بِنَبِیِّہ، وَآمَنَ بِمُحَمَّدٍ، وَالعبدُ المَمْلُوکُ اذَا أدّی حقَ اللّٰ، وحَقَّ مَوَالِیْہِ، وَرَجُلٌ لَہ اَمَةٌ، فَأدَّبَہَا فَأحْسَنَ تَأدِیْبَہَا، وَعَلَّمَہَا، فَأحْسَنَ تَعْلِیْمَہَا، ثُمَّ اَعْتَقَہَا، فَتَزَوَّجَہَا، فَلَہ أجْرَانِ“(۱) اس حدیث کے آخری جزء کی شرح میں ملاعلی قاری لکھتے ہیں کہ: ”یہ حکم صرف باندی کے لیے نہیں؛ بلکہ اپنی اولاد اور عام لڑکیوں کے لیے بھی یہی حکم ہے۔“(۲)
(۲) ایک صحابیہ حضرت شفاء بنت عدویہ تعلیم یافتہ خاتون تھیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ: ”تم نے جس طرح حفصہ کو ”نملہ“ (پھوڑے) کا رقیہ سکھایا ہے، اسی طرح لکھنا بھی سکھادو۔“(۳)
(۳) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی عورتوں کی تعلیم کا اہتمام فرماتے تھے اور ان کی خواہش پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے باضابطہ ان کے لیے ایک دن مقرر کردیا تھا، حضرت ابوسعید خدری کی روایت ہے: ”قَالَتْ النِّسَاءُ لِلنَّبِيّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ”غَلَبْنَٓ عَلَیکَ الرِّجَالُ، فَاجْعَلْ لَّنَا یَوْمًا مِنْ نَفْسِکَ، فَوَعَدَہُنَّ یَوْماً لَقِیَہُنَّ فِیْہِ، فَوَعَظَہُنَّ، وَأمَرَہُنَّ“(۴)۔
(۴) حضرت اسماء بنت یزید بن السکن انصاریہ بڑی متدین اور سمجھدار خاتون تھیں، انھیں ایک دفعہ عورتوں نے اپنی طرف سے ترجمان بناکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کریں کہ : ”اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مردو عورت ہر دو کی رہ نمائی کے لیے مبعوث فرمایا ہے؛ چنانچہ ہم آپ پر ایمان لائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کی، مگر ہم عورتیں پردہ نشیں ہیں، گھروں میں رہنا ہوتا ہے، ہم حتی الوسع اپنے مردوں کی ہر خواہش پوری کرتی ہیں، ان کی اولاد کی پرورش وپرداخت ہمارے ذمے ہوتی ہے، ادھر مرد مسجدوں میں باجماعت نماز ادا کرتے ہیں، جہاد میں شریک ہوتے ہیں، جس کی بنا پر انھیں بہت زیادہ ثواب حاصل ہوتا ہے؛ لیکن ہم عورتیں ان کے زمانہٴ غیبوبت میں ان کے اومال واولاد کی حفاظت کرتی ہیں، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! کیا ان صورتوں میں ہم بھی اجر وثواب میں مردوں کی ہمسر ہوسکتی ہیں؟“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت اسماء کی بصیرت افروز تقریر سن کر صحابہ کی طرف رخ کیا اور ان سے پوچھا: ”اسماء سے پہلے تم نے دین کے متعلق کسی عورت سے اتنا عمدہ سوال سنا ہے؟“ صحابہ نے نفی میں جواب دیا، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت اسماء سے فرمایا کہ: ”جاؤ اور ان عورتوں سے کہہ دو کہ: ”انَّ حُسْنَ تَبَعُّلِ احْداکُنَّ لِزَوْجِہَا، وَطَلَبِہا لِمَرْضَاتِہ، وَاِتِّبَاعِہَا لِمُوافَقَتِہ، یَعْدِلُ کلَّ مَا ذَکَرْتِ لِلرِّجَالِ“۔(۵)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانِ مبارک سے یہ عظیم خوش خبری سن کر حضرت اسماء کا دل بلّیوں اچھلنے لگا اور تکبیر وتہلیل کہتی ہوئی واپس ہوگئیں اور دیگر عورتوں کو بھی جاکرسنایا۔
تاریخ اسلامی کی ان چند جھلکیوں سے بہ خوبی معلوم ہوجاتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں عورتوں کے اندر حصولِ علم کے تئیں کس قدر شوق اور جذبہٴ بے پایاں پایا جاتا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان کے شوقِ طلب اور ذوقِ جستجو کی قدر کرتے ہوئے، ان کی تعلیم وتربیت کا کتنا اہتمام فرماتے تھے۔
تعلیم وتربیت کے عمومی ماحول کا اثر
تعلیم وتربیت کے اسی عمومی ماحول کا اثر ہے کہ جماعتِ صحابیات میں بلند پایہ اہل علم خواتین کے ذکرِجمیل سے آج تاریخ اسلام کا ورق ورق درخشاں وتاباں ہے؛ چنانچہ یہ امر محقق ہے کہ امہات المومنین میں حضرت عائشہ وحضرت ام سلمہ فقہ وحدیث و تفسیر میں رتبہٴ بلند رکھنے کے ساتھ ساتھ تحقیق ودرایت کے میدان کی بھی شہہ سوار تھیں، حضرت ام سلمہ کی صاحبزادی زینب بنت ابوسلمہ جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پروردہ تھیں، ان کے بارے میں تاریخ کا بیان ہے کہ:
”کَانَتْ أَفْقَہَ نَسَاءِ أہْلِ زَمَانِہَا“(۶)
حضرت ام الدردادء الکبری اعلیٰ درجے کی فقیہ اور عالمہ صحابیہ تھیں۔(۷)
حضرت سمرہ بنت نہیک اسدیہ کے بارے میں لکھا ہے کہ: ”وہ زبردست عالمہ تھیں، عمر دراز پائیں، بازاروں میں جاکر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کیا کرتی تھیں اور لوگوں کو ان کی بے راہ روی پر کوڑوں سے مارتی تھیں۔“(۸)
پھر یہ زریں سلسلہ دورِ صحابیات تک ہی محدود نہیں رہا؛ بلکہ تابعیات اور بعد کی خواتین کے زمانوں میں بھی ہمیں اس طبقے میں بڑی بڑی عالمہ، زاہدہ اور امت کی محسنہ وباکمال خواتین ملتی ہیں؛ چنانچہ مشہور تابعی، حدیث اور فن تعبیر الرؤیا کے مستند امام حضرت محمد بن سیرین کی بہن حفصہ نے صرف بارہ سال کی عمر میں قرآنِ کریم کو معنی ومفہوم کے ساتھ حفظ کرلیا تھا(۹) یہ فن تجوید وقراء ت میں مقامِ امامت کو پہنچی ہوئی تھیں؛ چنانچہ حضرت ابن سیرین کو جب تجوید کے کسی مسئلے میں شبہ ہوتا، تو شاگردوں کو اپنی بہن سے رجوع کرنے کا مشورہ دیتے۔(۱۰)
نفیسہ جو حسن بن زید بن حسن بن علی بن ابی طالب کی صاحبزادی اور حضرت اسحاق بن جعفر کی اہلیہ تھیں، انھیں تفسیر وحدیث کے علاوہ دیگر علوم میں بھی درک حاصل تھا، ان کے علم سے خواتین کے ساتھ ساتھ مردوں کی بھی معتد بہ تعداد نے سیرابی حاصل کی، ان کا لقب ”نفیسة العلم والمعرفہ“ پڑگیا تھا، حضرت امام شافعی جیسے رفیع القدر اہل علم دینی مسائل پر ان سے تبادلہٴ خیال کرتے تھے۔(۱۱)
?? ????