قومی اسمبلی کی مکمل کاروائی سرکاری سطح پر پہلی دفعہ شائع ہو گئی ہے، جس کے نتیجے میں قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا گیا تھا اس لیے قادیانیوں کی حجت ختم ہو گئی، کہ حکومت اس کو چھاپنے کی ہمت نہیں کر سکتی، کتاب کا ایک ایک لفظ پڑھنے کے لائق ہے۔ قادیانیوں کو اس کتاب کو جو سرکاری سطح پر چھاپی گئی ہے کا ایک عدد نسخہ دے دیا ہے ۔لہٰذا اب ان کے پاس اس کا کوئی جواز باقی نہیں رہا سوائے اس کے کہ پارلیمان اور عدالت کے حکم پر سرِ تسلیم خم کر کے اسے من و عن قبول کیا جائے۔آئیے آپ کو اس ساری کاروائی کی تفصیل سے آگاہ کرتے ہیں کہ سب کچھ کیسے ہوا۔ جناب اس کا آغاز ہوتا ہے اس رٹ پٹیشن سے جو بشیر احمد خان نے لاہور ہائی کورٹ میں دائر کی۔
بشیر احمد خان کی رٹ پٹیشن
بشیر احمد خان کی رٹ پٹیشن جس میں انہوں نے قومی اسمبلی ۱۹۷۴ء والی کاروائی کا مکمل ریکارڈ طلب کیا تھا۔ بشیر احمد خان کی درخواست پر لاہور ہائی کورٹ کے حکم پر قومی اسمبلی نے محترمہ فہمیدہ مرزا صاحبہ نے اس کی پرنٹنگ کا حکم صادر فرمایا۔ اس مکمل ریکارڈ کو اکٹھا کرنے پر ۴۰۴۰۰ چالیس لاکھ اور چالیس ہزار روپیہ اور بعدازاں اس کی پرنٹنگ پر ۶ لاکھ ۷۸ ہزار روپے خرچ ہوئے، یعنی کل ۴۷ لاکھ ۱۸ ہزار روپیہ خرچ آیا۔ ان کاغذات میں، بشیر احمد خان کی درخواست پر ہائی کورٹ کا آرڈر شامل ہے جس کی پیروی کرتے ہوئے سپیکر قومی اسمبلی نے تمام ریکارڈ پر مشتمل ساری کروائی ایک کتابی شکل میں لاہور ہائی کورٹ کو مہیا کی اور پھر بشیر احمد خان صاحب کو اس کا ایک نسخہ ان کے وکیل کی معرفت مہیا کیا گیا۔
قادیانیوں کو کافر کیوں قراردیا گیا ۔ قومی اسمبلی کی مکمل کاروائی سرکاری سطح پر پہلی دفعہ شائع ہو گئی ہے، اس لیے ان کی حجت ختم ہو گئی، کہ حکومت اس کو چھاپنے کی ہمت نہیں کر سکتی، کتاب کا ایک ایک لفظ پڑھنے کے لائق ہے۔ قادیانیوں کو سرکاری سطح پر چھاپی گئی کتاب کا ایک مکمل نسخہ دے دیا گیا ہے۔ اس کتاب کے 21 حصے ہیں ،اور اب ہم یہ سب تمام مسلم امہ کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں تا کہ سبھی دوست اس تمام کروائی سے آگاہ ہو سکیں اور قادیانیوں کے جھوٹے پراپیگنڈے کا تن دہی سے مقابلہ کر سکیں۔
قومی اسمبلی کا فیصلہ- قادیانی احمدی کافر ہیں؛ کچھ پسِ منظر کچھ پیش منظر
اسپیکر قومی اسمبلی محترمہ فہمیدہ مرزا نے اپنے خصوصی اختیارات کے تحت سابق وزیراعظم جناب ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے سے متعلق پارلیمنٹ کے بند کمرے کے اجلاس میں ہونے والی بحث کے ریکارڈ کو 36 سال بعد اوپن کرنے کی منظوری دے دی ہے۔ قومی اسمبلی سیکریٹریٹ کے ذرائع کے مطابق بھٹو دور میں 1974ء میں قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے سے متعلق پارلیمنٹ کے بند کمرے کا اجلاس تقریباً ایک ماہ سے زائد جاری رہا تھا۔ جس کے نتیجہ میں قادیانیوں کو ان کے کفریہ عقائد کی بناء پر ملک کی منتخب جمہوری حکومت نے متفقہ طور پر 7 ستمبر1974ء کو انہیں غیر مسلم اقلیت قرار دیا اورآئین پاکستان کی شق 160(2) اور 260(3) میں اس کا اندراج کر دیا۔ معاملے کی حساسیت کے پیش نظر بحث کا تمام ریکارڈ اسی وقت سیل کر دیا گیا تھا۔ یہ شرط رکھی گئی تھی کہ اسے تیس سال سے کم کے عرصے میں اوپن نہیں کیا جائے گا۔ اسپیکر قومی اسمبلی فہمیدہ مرزا نے اب اس وقت کی بحث کے ریکارڈ کو لائبریری میں رکھنے کی منظوری دے دی ہے۔ اسمبلی ترجمان نے بتایا کہ اس وقت بحث کا تمام ریکارڈ پرنٹنگ کے مراحل میں ہے اور جلد اسے لائبریری کا حصہ بنا دیا جائے گا۔
قادیانی 1974ء سے لے کر اب تک یہ کہتے چلے آ رہے ہیں کہ اگر یہ کارروائی شائع ہو جائے تو آدھا پاکستان قادیانی ہو جائے گا۔ قومی اسمبلی کی یہ کارروائی اوپن ہونے سے قادیانیوں کا دیرینہ مطالبہ پورا ہو گیا۔ لیکن حیرت ہے کہ اس خبر سے قادیانیوں کے ہاں صفِ ماتم بچھ گئی ہے۔ اس وقت کے اٹارنی جنرل جناب یحییٰ بختیار مرحوم نے ایک سوال پر کہ ’’قادیانیوں کا کہنا ہے کہ اگر یہ روداد شائع ہو جائے تو آدھا پاکستان قادیانی ہو جائے گا۔‘‘ کا جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’’سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، یہ کارروائی ان کے خلاف جاتی ہے۔ ویسے وہ اپنا شوق پورا کر لیں، ہمیں کیا اعتراض ہے۔ ان دنوں ساری اسمبلی کی کمیٹی بنا دی تھی اور کہا گیا تھا کہ یہ ساری کارروائی سیکرٹ ہو گی تا کہ لوگ اشتعال میں نہ آئیں۔ میرے خیال میں اگر یہ کارروائی شائع ہو گئی تو لوگ قادیانیوں کو ماریں گے۔‘‘ (انٹرویو نگار منیر احمد منیر ایڈیٹر ’’ماہنامہ آتش فشاں‘‘ لاہور، مئی 1994ء) سابق اٹارنی جنرل اور معروف قانون دان جناب یحییٰ بختیار نے جس لگن، جانفشانی اور قانونی مہارت سے امت مسلمہ کے اس نازک اور حساس کیس کو لڑا، قادیانی شاطر سربراہوں پر طویل اور اعصاب شکن جرح کے بعد جس طرح ان سے ان کے عقائد و عزائم کے بارے میں سب کچھ اگلوایا، بلکہ اعتراف جرم کروایا، وہ انہی کا خاصہ ہے، جس پر وہ صد ستائش کے مستحق ہیں۔ بلاشبہ ان کی یہ خدمت سنہرے حروف سے لکھی جانے کے قابل ہے۔ لیکن اس کے برعکس قادیانیوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ اس کارروائی کے نتیجہ میں قومی اسمبلی کا کوئی ایک رکن بھی قادیانی نہیں ہوا۔ کسی رکن قومی اسمبلی نے کارروائی کا بائیکاٹ نہیں کیا۔ کسی رکن قومی اسمبلی نے اجلاس سے واک آؤٹ نہیں کیا۔ کسی رکن قومی اسمبلی نے قادیانیوں کی حمایت نہیں کی۔ اس کے برعکس نہ صرف تمام ارکان نے متفقہ طور پر قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا بلکہ قادیانی خلیفہ مرزا ناصر کی ٹیم میں شامل ایک معروف قادیانی مرزا سلیم اختر چند ہفتوں بعد قادیانیت سے تائب ہو کر مسلمان ہو گیا۔ حالانکہ قادیانی خلیفہ مرزا ناصر پوری ٹیم کے ساتھ مکمل تیاری سے بڑی خوشی سے قومی اسمبلی گیا۔ اس کے اسمبلی کے اندر داخل ہونے کا انداز بڑا فاتحانہ، تکبرانہ اور تمسخرانہ تھا۔ اس کا خیال تھا کہ میں تاویلات اور شکوک و شبہات کے ذریعے اسمبلی کو قائل کر لوں گا، مگر بری طرح ناکام رہا۔ قادیانی قیادت نے قومی اسمبلی کے تمام اراکین میں 180 صفحات پر مشتمل کتاب ’’محضر نامہ‘‘ تقسیم کی، جس میں اپنے عقائد کی بھرپور ترجمانی کی۔ اس کتاب کے آخری صفحہ پر ’’دعا‘‘ کے عنوان سے لکھا ہے؛ ’’دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی جناب سے معزز ارکان اسمبلی کو ایسا نور فراست عطا فرمائے کہ وہ حق و صداقت پر مبنی ان فیصلوں تک پہنچ جائیں جو قرآن و سنت کے تقاضوں کے عین مطابق ہوں۔‘‘ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر قادیانیوں کی دعا قبول ہوئی تو وہ قومی اسمبلی کا یہ فیصلہ قبول کیوں نہیں کرتے؟ اور اگر دعا قبول نہیں ہوئی تو وہ جھوٹے ہیں۔
قادیانی اعتراض کرتے ہیں کہ قومی اسمبلی کی اس کارروائی کو اِن کیمرہ، خفیہ کیوں رکھا گیا۔ یہ کارروائی اخبارات میں روزانہ کیوں شائع نہ ہوئی؟۔ اس سوال کا جواب قومی اسمبلی کے اس وقت کے سپیکر جناب صاحبزادہ فاروق علی خان نے اپنے ایک انٹرویو میں دیتے ہوئے کہا؛
’’بحث اور کارروائی کے دوران ایسی باتوں کے پیش آنے کا بھی امکان تھا کہ اگر منظرعام پر آئیں تو مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچ سکتی تھی۔ قادیانی فرقوں کے رہنماؤں کو بھی بلانا تھا۔ ان کا نقطۂ نظر بھی سننا تھا۔ ظاہر ہے وہ جو کچھ کہتے، مسلمانوں کو ہرگز اتفاق نہ ہوتا۔ لہٰذا کارروائی خفیہ ہی رکھنے کا فیصلہ کیا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ ناموس رسالت کا مسئلہ نازک اور حساس ہے۔ مسلمان جان بھی قربان کر دینا ایک انتہائی معمولی بات سمجھتا ہے، لہٰذا کسی بھی خطرناک جذباتی صورتحال سے بچنے کے لیے اس کارروائی کو خفیہ رکھنا ہی مناسب تھا۔ حضور رسالت مآب ﷺ کی ذات گرامی کے ساتھ امت کو جو والہانہ عشق ہے، اس کو زبان و قلم سے بیان کرنا ناممکن ہے۔ اس خفیہ بحث کا فیصلہ کھلا تھا اور اس فیصلے سے ملت اسلامیہ آج تک مطمئن ہے۔‘‘ (قومی اسمبلی کے سابق سپیکر صاحبزادہ فاروق علی خان سے اختر کاشمیری صاحب کا انٹرویو، روزنامہ ’’جنگ‘‘ جمعہ میگزین 3 تا 9 ستمبر 1982ء)۔
قادیانی کہتے ہیں یہ ایک یکطرفہ فیصلہ تھا۔ یہ بات لاعلمی اور تعصب پر مبنی ہے۔ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ جمہوری نظام حکومت میں کوئی بھی اہم فیصلہ ہمیشہ اکثریتی رائے کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔ لیکن قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیے جانے کا فیصلہ شاید دنیا کا واحد اور منفرد واقعہ ہے کہ حکومت نے یہ فیصلہ کرنے سے پہلے قادیانی جماعت کے سربراہ مرزا ناصر کو پارلیمنٹ میں آ کر اپنا نقطۂ نظر پیش کرنے کے لیے بلایا۔ جہاں اٹارنی جنرل جناب یحییٰ بختیار نے اس پر، قادیانی کفریہ عقائد کے حوالہ سے جرح کی۔ مرزا ناصر نے اپنے تمام عقائد و نظریات کا برملا اعتراف کیا بلکہ تاویلات کے ذریعے ان کا دفاع بھی کیا۔ لہٰذا ملک کی منتخب پارلیمنٹ نے ۱۳ دن کی طویل بحث و تمحیص کے بعد آئین میں ترمیم کرتے ہوئے متفقہ طور پر قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا، لیکن قادیانیوں نے حکومت کے اس فیصلہ کو آج تک تسلیم نہیں کیا، بلکہ الٹا وہ مسلمانوں کا تمسخر اڑاتے ہیں اور انھیں سرکاری مسلمان ہونے کا طعنہ دیتے ہیں۔ وہ خود کو مسلمان اور مسلمانوں کو کافر کہتے ہیں اور آئین میں دی گئی اپنی حیثیت کو تسلیم نہیں کرتے۔
قادیانی کہتے ہیں کہ اس وقت اراکین اسمبلی کی اکثریت زانی اور شرابی تھی۔ انھیں کوئی حق حاصل نہ تھا کہ وہ ایسا فیصلہ کرتے۔ قادیانیوں سے پوچھنا چاہیے کہ انہوں نے اس وقت اسمبلی کا بائیکاٹ کیوں نہ کیا؟، کیا انہیں وہاں زبردستی لے جایا گیا تھا؟، حالانکہ وہ تو وہاں گئے ہی اس لیے تھے کہ قومی اسمبلی جو بھی فیصلہ کرے گی، ہمیں قبول ہو گا۔ عجیب بات ہے کہ اگر قادیانیوں کو پارلیمنٹ غیر مسلم اقلیت قرار دے تو وہ زانی اور شرابی، اگر سپریم کورٹ انہیں کافر قرار دے تو یہ کہنا کہ یہ تو انگریزی قانون پڑھے ہوئے ہیں، انھیں شریعت کا کیا علم؟، اور اگر علمائے کرام انہیں غیر مسلم کہیں تو یہ اعتراض کہ ان کا تو کام ہی یہی ہے۔
?? ????